ghazalifarooq
New Reader
مغرب میں صدیوں تک عورت کو مرد سے کمتر سمجھا جاتا رہا ۔ عورت کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ روح تک نہیں رکھتی ۔معاشرے کی ترقی میں ان کے کردار کا تسلسل کے ساتھ انکار کیا جاتا رہا ۔ عورتوں کو تعلیم کی خواہش رکھنے پر گرفتار کیا جاتا تھا ۔ مغرب کی عورت کو اپنے بنیادی ترین حقوق کے حصول کے لیے بھی بہت قربانیاں دینی پڑیں اور بہت سی معاشرتی لڑائیاں لڑنی پڑیں۔ اس کی ایک مثال انتخابات میں ووٹ دینے جیسے ایک بنیادی حق کی ہے جس کے لیے عورتوں نے سفراگیٹ (Suffragette) نام کی ایک تحریک کا آغاز کیا گیا ۔یہ تحریک صرف عورتوں پر مشتمل تھی جسے برطانیہ سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون "ایمیلین پینک ہرسٹ" (Emmeline Pankhurst) کو 1903 ء میں اس برطانیہ میں برپا کرنا پڑا جس کو سیاسی انقلاب کے ذریعے بادشاہت و پاپائیت سے چھٹکارہ حاصل کیے اور جمہوریت کو اپنائے ہوئے کم و بیش 250 سال کا عرصہ بیت چکا تھا ۔ اسی طرح برطانیہ میں 1882ء میں اپنی طرز کا پہلا قانون " میریڈ ویمین پراپرٹی ایکٹ " (Married Women Property Act) کے نام سے پاس کیا گیا جس کے بعد سے ایک شادی شدہ عورت کو جائداد اور وراثت کا مالک بننے کا حق حاصل ہوا جبکہ اس سے پہلے یہ حق صرف اس کے شوہر کو حاصل تھا۔ لیکن شروع میں اس نئے قانون کا اطلاق بھی ایک نہایت محدود پیمانے پر تھا یہاں تک کہ اس وقت خود پوری برٹش ریاست پر اس کا اطلاق نہ تھا مثلا۱ً موجودہ اسکاٹ لینڈ کی عورتیں اس حق سے محروم تھیں ۔اور برٹش ایمپائر کی نوآبادیات (colonies) میں بسنے والی عورتوں کو تو ویسے ہی ایسے کسی حق کے قابل نہ سمجھا گیا تھا۔
جبکہ مسلم دنیا میں معاملہ اس کے بالکل بر عکس تھا جہاں عورتیں علم ، تحقیق اور عمل کی دنیا میں مردوں کے شانہ بشانہ تھیں اور ریاستی مشینری کا حصہ بھی تھیں ۔ ام درداء ؓ ایک صحابیہ تھیں جو علم حدیث اور علم فقہ میں نمایاں مقام رکھتی تھیں اور ان علوم میں باقاعدہ دروس منعقد کیا کرتی تھیں۔ وہ اسلامی ریاست کی جانب سے دمشق میں بطور قاضی مامور رہیں۔ ان کے شاگردوں میں عبد الملک بن مروان بن الحکم بھی شامل تھے جو بنو امیہ کے پانچویں خلیفہ بنے۔ اسی طرح تابعین کی جماعت میں حفصہ بنت سیرین ؒ نے فقہ کے علم میں بہت شہرت پائی۔ وہ مشہور تابعی محمد ابن سیرین کی بڑی بہن تھیں جو علم الرویاء میں ایک مستند ترین حوالہ گردانے جاتے ہیں۔ جہاں تک دنیاوی علوم کی بات ہے تو فاطمہ الفہری وہ خاتون تھیں جنہوں نے 244ھ میں مراکش میں دنیا کی سب سے پہلی یونیورسٹی قائم کی ۔جامعۃ القرویین (University of Qarawiyyin) نامی اس یونیورسٹی میں قرآنی علوم ، عربی لغت، ریاضی (mathematics) ، طب (medicine) اور فلکیات (astronomy) جیسے مضامین پڑھائے جاتے تھے۔ یہ یونیورسٹی آج بھی قائم و دائم ہے۔ اسی طرح مریم الاسطرلابی کی تحقیق نے سمت کا پتہ لگانے والے آلات مثلاً ستارہ یاب (astrolabe) وغیرہ کی ترقی میں خاطر خواہ مدد فراہم کی۔ وہ 350 ھ میں شام میں قائم امارت حلب کے امیر سیف الدولہ کے دور حکومت میں باقاعدہ ملازمت پیشہ اور تنخواہ دار تھیں یعنی ایک ورکنگ ویمین (working woman) تھیں ۔ مسلمانوں کی تاریخ میں ایسی خواتین کے ان گنت حوالے موجود ہیں ۔ یہ وہ وقت تھا جب مغرب میں مرد و زن سب جہالت کے اندھیروں میں ڈوبے ہوئے تھے جبکہ مسلم خواتین علم و عمل کی دنیا میں معرکے سر انجام دے رہی تھیں۔
آج سے صرف 150 سال قبل جو مغرب کی عورت اپنے لیے جائداد اور وراثت کے حقوق کے لیے سڑکوں پر سراپا احتجاج تھی تو اسلام نے عورت کو 1400 سال پہلے ہی وراثت اور جائداد کا حق دے دیا تھا۔اسی طرح آج سے صرف 100سال قبل جب مغرب کی عورت ریاست میں اپنی قبولیت کی جنگ لڑ رہی تھی، مسلمانوں میں عورت 1000 سال قبل ریاست کی حفاظت کی جنگ تلوار سے لڑ رہی تھی۔ ایک طرف مغرب کی عورت کو کام کرنے کا حق حاصل کرنے کے لیے بھرپور جدو جہد کرنا پڑی ،تو دوسری جانب اسلام نے اسے پہلے سے ہی کام کرنے یا نہ کرنے کا اختیار دے دیا۔
مغرب کے اس گھٹن زدہ اور عورتوں کے ساتھ ظلم پر مبنی ماحول میں مغرب کی عورت نے جب اپنے حقوق کی جنگیں لڑیں تو اس نے ان زیادتیوں کے رد عمل کے طور پر " آزادی" (freedom) اور "جنسی مساوات" (gender equality)جیسے نعروں کو بلند کیا۔ لیکن ان نعروں نے اس کی مشکلات کا خاتمہ کرنے کی بجائے ان میں مزید اضافہ کیا۔ آزادیٔ نسواں کے نعرےنے عورت کو آزاد کرنے کی بجائے الٹا مرد کو اس معاملہ میں آزاد کر دیا کہ وہ عورت اور اس کے پیدا کردہ بچوں کی مستقل ذمہ داری کو اٹھائے بغیر اسے اپنی جنسی تسکین کے لئے استعمال کرتا رہے۔ جبکہ اسلام میں شادی کے بندھن میں جڑے بغیر اور پیدا ہونے والے بچوں کی ذمہ داری اٹھائے بغیر ایک مرد کو کسی عورت سے جنسی تسکین پوری کرنے کی کوئی اجازت نہیں ۔ لہٰذا اسلام نے عورت کے حقوق کے تحفظ کی خاطر مرد پر چند پابندیاں عائد کیں ہیں۔ پھر جنسی مساوات کے نعرے نے عورت پر خود کمانے کی ایک اضافی ذمہ داری عائد کی جبکہ بچے پالنے کی ذمہ داری اس پر پہلے سے ہی موجود تھی۔ لہٰذا اس نعرے نے عورت کی ذمہ داریوں کو مرد کی ذمہ داریوں کے برابر لانے کی بجائے عورت پر مرد کے مقابلے میں دوہری ذمہ داری عائد کی ۔ اس کے برعکس اسلام کی رو سے عورت بنیادی طور پر گھر کے امور کی دیکھ بھال اور بچوں کی پرورش کی ذمہ دار ہے جبکہ ذریعۂ معاش کے لیے کام کرنا اس کی مرضی پر منحصر ہے ۔ اور مرد کی بنیادی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ گھر کی معاشی ضروریات کو پورا کرے۔ یوں دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں اور اسلامی نظام کے تحت ایک منفرد معاشرہ تخلیق پاتا ہے۔ کردار کی یہ تقسیم کسی ایک کو دوسرے سے اعلیٰ یا ادنیٰ نہیں بناتی بلکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تو برتر صرف وہ ہے جو زیادہ متقی و پرہیز گار ہے، خواہ وہ مرد ہو یا عورت۔
مغرب کی عورت نے اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے "آزادی" اور " جنسی مساوات" کے جن باطل تصورات کو اختیار کیا اس نے عورت کا مزید استحصال کیا اور اسے مغرب کے موجودہ نام نہاد ترقی یافتہ معاشروں میں بھی #MeToo سے بڑھ کر کچھ حاصل نہ ہو پا یا ۔ ایسا اس لیے ہوا کیونکہ انسان کی عقل معاشرے میں مرد اور عورت کے حقوق و فرائض کا درست اعتبار سے تعین اور احاطہ کرنے کے معاملہ میں محدود ہے ۔ معاشرے میں مرد و عورت کے کردار کے درست توازن کا علم صرف اس ہستی کو ہو سکتا ہے جس نے انہیں پیدا کیا ہے۔اور اللہ تعالیٰ نے مرد و عورت کو محض تخلیق ہی نہیں کیا بلکہ ان کے لئے مخصوص کردار کا تعین بھی کر دیا ہے اور اس معاملہ کو انسان کی ناقص عقل پر نہیں چھوڑا کہ وہ بھٹکتا پھرے اور صرف اسی عدم تعین کی وجہ سے استحصال کا شکار ہوتا رہے ۔
موجودہ نظام " عورت مارچ " جیسی سرگرمیوں کی اجازت دے کر پاکستان کے مسلمانوں کو بھی مغرب کی ڈگر پر چلانا چاہتا ہے ، جس نے انسان کی فطرت کو مسخ کر کے معاشرے کو " آزادیوں" پر استوار کرنے کی کوشش کی اور معاشرے کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے ۔جبکہ انسان کی فطری حیثیت یہ نہیں کہ وہ آزاد ہے جیسا کہ مغرب پیش کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فطری طور پر انسان کو اس جبلت کے ساتھ پیدا کیا ہے کہ وہ رشتوں کی ذمہ داریوں کا احساس کرتا ہے اور ان کے تقاضوں کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔
آج مسلم معاشروں میں عورتوں کو درپیش مسائل کی وجہ اسلام کے احکامات نہیں بلکہ مغرب کا عطا کردہ "آزادیوں " پر مبنی بوسیدہ اور غیر فعال سرمایہ دارانہ نظام ہے۔ اور اس کا حل مغرب کی نقالی کرنا نہیں کہ جہاں معاشرہ اور خاندان اطمینان اور حقیقی خوشی کی دولت سے محروم ہیں، جہاں خاندانی ڈھانچہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے ، چرس، کوکین اور دیگر منشیات سب سے زیادہ استعمال کی جانے والی ڈرگز ہیں اور ڈپریشن کی شرح آسمان کو چھو رہی ہے۔ بلکہ اسلام کے معاشرتی احکامات کا نفاذ ہی ایک پاکیزہ اور مہذب معاشرے کو جنم دے سکتا ہے جہاں عورت کی شناخت ایک عفت و آبرو اور فعال شہری کی ہو تی ہے ، اسے کاروباری شے کے طور پر نہیں دیکھا جاتا اور مرد و عورت دونوں اپنی تمام جسمانی اور جبلی ضروریات کو شرعی حدود و قیود میں رہتے ہوئے پورا کر پاتے ہیں۔
جبکہ مسلم دنیا میں معاملہ اس کے بالکل بر عکس تھا جہاں عورتیں علم ، تحقیق اور عمل کی دنیا میں مردوں کے شانہ بشانہ تھیں اور ریاستی مشینری کا حصہ بھی تھیں ۔ ام درداء ؓ ایک صحابیہ تھیں جو علم حدیث اور علم فقہ میں نمایاں مقام رکھتی تھیں اور ان علوم میں باقاعدہ دروس منعقد کیا کرتی تھیں۔ وہ اسلامی ریاست کی جانب سے دمشق میں بطور قاضی مامور رہیں۔ ان کے شاگردوں میں عبد الملک بن مروان بن الحکم بھی شامل تھے جو بنو امیہ کے پانچویں خلیفہ بنے۔ اسی طرح تابعین کی جماعت میں حفصہ بنت سیرین ؒ نے فقہ کے علم میں بہت شہرت پائی۔ وہ مشہور تابعی محمد ابن سیرین کی بڑی بہن تھیں جو علم الرویاء میں ایک مستند ترین حوالہ گردانے جاتے ہیں۔ جہاں تک دنیاوی علوم کی بات ہے تو فاطمہ الفہری وہ خاتون تھیں جنہوں نے 244ھ میں مراکش میں دنیا کی سب سے پہلی یونیورسٹی قائم کی ۔جامعۃ القرویین (University of Qarawiyyin) نامی اس یونیورسٹی میں قرآنی علوم ، عربی لغت، ریاضی (mathematics) ، طب (medicine) اور فلکیات (astronomy) جیسے مضامین پڑھائے جاتے تھے۔ یہ یونیورسٹی آج بھی قائم و دائم ہے۔ اسی طرح مریم الاسطرلابی کی تحقیق نے سمت کا پتہ لگانے والے آلات مثلاً ستارہ یاب (astrolabe) وغیرہ کی ترقی میں خاطر خواہ مدد فراہم کی۔ وہ 350 ھ میں شام میں قائم امارت حلب کے امیر سیف الدولہ کے دور حکومت میں باقاعدہ ملازمت پیشہ اور تنخواہ دار تھیں یعنی ایک ورکنگ ویمین (working woman) تھیں ۔ مسلمانوں کی تاریخ میں ایسی خواتین کے ان گنت حوالے موجود ہیں ۔ یہ وہ وقت تھا جب مغرب میں مرد و زن سب جہالت کے اندھیروں میں ڈوبے ہوئے تھے جبکہ مسلم خواتین علم و عمل کی دنیا میں معرکے سر انجام دے رہی تھیں۔
آج سے صرف 150 سال قبل جو مغرب کی عورت اپنے لیے جائداد اور وراثت کے حقوق کے لیے سڑکوں پر سراپا احتجاج تھی تو اسلام نے عورت کو 1400 سال پہلے ہی وراثت اور جائداد کا حق دے دیا تھا۔اسی طرح آج سے صرف 100سال قبل جب مغرب کی عورت ریاست میں اپنی قبولیت کی جنگ لڑ رہی تھی، مسلمانوں میں عورت 1000 سال قبل ریاست کی حفاظت کی جنگ تلوار سے لڑ رہی تھی۔ ایک طرف مغرب کی عورت کو کام کرنے کا حق حاصل کرنے کے لیے بھرپور جدو جہد کرنا پڑی ،تو دوسری جانب اسلام نے اسے پہلے سے ہی کام کرنے یا نہ کرنے کا اختیار دے دیا۔
مغرب کے اس گھٹن زدہ اور عورتوں کے ساتھ ظلم پر مبنی ماحول میں مغرب کی عورت نے جب اپنے حقوق کی جنگیں لڑیں تو اس نے ان زیادتیوں کے رد عمل کے طور پر " آزادی" (freedom) اور "جنسی مساوات" (gender equality)جیسے نعروں کو بلند کیا۔ لیکن ان نعروں نے اس کی مشکلات کا خاتمہ کرنے کی بجائے ان میں مزید اضافہ کیا۔ آزادیٔ نسواں کے نعرےنے عورت کو آزاد کرنے کی بجائے الٹا مرد کو اس معاملہ میں آزاد کر دیا کہ وہ عورت اور اس کے پیدا کردہ بچوں کی مستقل ذمہ داری کو اٹھائے بغیر اسے اپنی جنسی تسکین کے لئے استعمال کرتا رہے۔ جبکہ اسلام میں شادی کے بندھن میں جڑے بغیر اور پیدا ہونے والے بچوں کی ذمہ داری اٹھائے بغیر ایک مرد کو کسی عورت سے جنسی تسکین پوری کرنے کی کوئی اجازت نہیں ۔ لہٰذا اسلام نے عورت کے حقوق کے تحفظ کی خاطر مرد پر چند پابندیاں عائد کیں ہیں۔ پھر جنسی مساوات کے نعرے نے عورت پر خود کمانے کی ایک اضافی ذمہ داری عائد کی جبکہ بچے پالنے کی ذمہ داری اس پر پہلے سے ہی موجود تھی۔ لہٰذا اس نعرے نے عورت کی ذمہ داریوں کو مرد کی ذمہ داریوں کے برابر لانے کی بجائے عورت پر مرد کے مقابلے میں دوہری ذمہ داری عائد کی ۔ اس کے برعکس اسلام کی رو سے عورت بنیادی طور پر گھر کے امور کی دیکھ بھال اور بچوں کی پرورش کی ذمہ دار ہے جبکہ ذریعۂ معاش کے لیے کام کرنا اس کی مرضی پر منحصر ہے ۔ اور مرد کی بنیادی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ گھر کی معاشی ضروریات کو پورا کرے۔ یوں دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں اور اسلامی نظام کے تحت ایک منفرد معاشرہ تخلیق پاتا ہے۔ کردار کی یہ تقسیم کسی ایک کو دوسرے سے اعلیٰ یا ادنیٰ نہیں بناتی بلکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تو برتر صرف وہ ہے جو زیادہ متقی و پرہیز گار ہے، خواہ وہ مرد ہو یا عورت۔
مغرب کی عورت نے اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے "آزادی" اور " جنسی مساوات" کے جن باطل تصورات کو اختیار کیا اس نے عورت کا مزید استحصال کیا اور اسے مغرب کے موجودہ نام نہاد ترقی یافتہ معاشروں میں بھی #MeToo سے بڑھ کر کچھ حاصل نہ ہو پا یا ۔ ایسا اس لیے ہوا کیونکہ انسان کی عقل معاشرے میں مرد اور عورت کے حقوق و فرائض کا درست اعتبار سے تعین اور احاطہ کرنے کے معاملہ میں محدود ہے ۔ معاشرے میں مرد و عورت کے کردار کے درست توازن کا علم صرف اس ہستی کو ہو سکتا ہے جس نے انہیں پیدا کیا ہے۔اور اللہ تعالیٰ نے مرد و عورت کو محض تخلیق ہی نہیں کیا بلکہ ان کے لئے مخصوص کردار کا تعین بھی کر دیا ہے اور اس معاملہ کو انسان کی ناقص عقل پر نہیں چھوڑا کہ وہ بھٹکتا پھرے اور صرف اسی عدم تعین کی وجہ سے استحصال کا شکار ہوتا رہے ۔
موجودہ نظام " عورت مارچ " جیسی سرگرمیوں کی اجازت دے کر پاکستان کے مسلمانوں کو بھی مغرب کی ڈگر پر چلانا چاہتا ہے ، جس نے انسان کی فطرت کو مسخ کر کے معاشرے کو " آزادیوں" پر استوار کرنے کی کوشش کی اور معاشرے کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے ۔جبکہ انسان کی فطری حیثیت یہ نہیں کہ وہ آزاد ہے جیسا کہ مغرب پیش کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فطری طور پر انسان کو اس جبلت کے ساتھ پیدا کیا ہے کہ وہ رشتوں کی ذمہ داریوں کا احساس کرتا ہے اور ان کے تقاضوں کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔
آج مسلم معاشروں میں عورتوں کو درپیش مسائل کی وجہ اسلام کے احکامات نہیں بلکہ مغرب کا عطا کردہ "آزادیوں " پر مبنی بوسیدہ اور غیر فعال سرمایہ دارانہ نظام ہے۔ اور اس کا حل مغرب کی نقالی کرنا نہیں کہ جہاں معاشرہ اور خاندان اطمینان اور حقیقی خوشی کی دولت سے محروم ہیں، جہاں خاندانی ڈھانچہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے ، چرس، کوکین اور دیگر منشیات سب سے زیادہ استعمال کی جانے والی ڈرگز ہیں اور ڈپریشن کی شرح آسمان کو چھو رہی ہے۔ بلکہ اسلام کے معاشرتی احکامات کا نفاذ ہی ایک پاکیزہ اور مہذب معاشرے کو جنم دے سکتا ہے جہاں عورت کی شناخت ایک عفت و آبرو اور فعال شہری کی ہو تی ہے ، اسے کاروباری شے کے طور پر نہیں دیکھا جاتا اور مرد و عورت دونوں اپنی تمام جسمانی اور جبلی ضروریات کو شرعی حدود و قیود میں رہتے ہوئے پورا کر پاتے ہیں۔