ghazalifarooq
New Reader
جمہوریت کا وقت اب پورا ہو چکا
جہاں جمہوریت رائج ہوتی ہے وہاں عوام کی اکثریت لازماً اشرافیہ کے ایک مختصرگروہ کے ہاتھوں استحصال کاشکار ہوجاتی ہے۔یہ ایک عالمی حقیقت ہے کہ عمومی طور پر و ہی لوگ امیر ترین ہیں جنہیں سیاست دانوں کی بلا واسطہ یا بل واسطہ مدد و حمایت اور سیاسی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے۔جیمز میڈیسن (James Madison) نے، جو کہ امریکی آئین کابانی تھا ، جمہوریت کی اس خاصیت کا یوں اظہار کیاکہ ''جاگیرداروں کا حکومت میں حصہ ہونا چاہیے تا کہ اِن انتہائی اہم مفادات کا تحفظ کیا جائے اور دوسری (یعنی عوام کی) طاقت کو کنٹرول اور توازن میں رکھا جائے۔ اور ان(جاگیرداروں) کو اس طرح اس نظام کا حصہ ہونا چاہئے کہ وہ دولت مند اقلیت کو اکثریت سے بچاسکیں''۔ مشہور امریکی ڈیموکریٹ رابرٹ کارلائل بیرڈ (Robert Carlyle Byrd) نے اپنے جمہوری ملک کی حقیقت کے متعلق یہ کہا کہ ''دولت مندوں کا انتظام و انصرام ،دولت مندوں کے ذریعے ،دولت مندوں کے لیے "۔بس فرق صرف اتنا ہے کہ جدید جمہوریتوں میں جاگیرداروں کی جگہ کارپوریٹ سرمایہ داروں،صنعت کاروں، بڑی بڑی جائیدادوں کے مالکوں اور سیاسی خاندانوں نے لے لی ہے۔
جمہوریت اشرافیہ کے ہاتھوں میں دولت کے ارتکاز کو یقینی بناتی ہے۔ جمہوریت میں دولت کے چند ہاتھوں میں مرتکز ہونے کو انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کے ذریعے قانونی تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔ سیاسی خاندان اس لیے دولت مند ہوجاتے ہیں کیونکہ وہ معاشرے میں موجود دولت کے بے پناہ وسائل کو ہڑپ کر لیتے ہیں۔خصوصاً ان کا نشانہ ریاستی ادارے اور عوامی اثاثہ جات، جیسےہتھیار سازی کے بڑے بڑے ادارے، بینک اور توانائی کی صنعت، وغیرہ ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ،برطانیہ اور فرانس میں بڑے بڑے سرمایہ داروں کے خاندان حکمرانی میں ہوتے ہیں۔ دولت انتہاء درجے مرتکز ہو چکی ہے یہاں تک کہ 90فیصد دولت محض 5فیصد لوگوں میں محدود ہے۔ بھارت میں جمہوریت ستر سال سے بھی زائد عرصے سے بغیر کسی رکاوٹ کے جاری و ساری ہے اوراس کا نتیجہ یہ ہے کہ ایک طرف انتہائی دولت مند براہمن اشرافیہ ہے جبکہ دوسری طرف عوام ہیں جو لاکھوں کی تعداد میں غربت کے ہاتھوں خودکشیاں کرنے پر مجبورہیں۔
پاکستان میں جمہوریت اشرافیہ اور استعماردونوں کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے۔پاکستان میں بھی سیاست دان جمہوریت میں کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری کرتے ہیں تا کہ اپنی دولت میں بے تحاشہ اضافہ کرسکیں۔ تو یہ کہاوت حقیقتاً جمہوریت کے لیے موزوں ہے کہ ''طاقت کرپٹ کرتی ہے اور مکمل طاقت مکمل طور پر کرپٹ کردیتی ہے''۔ لہٰذا پاکستان میں جمہوریت ہی وہ وجہ ہے کہ قدرتی وسائل سے مالامال ہونے کے باوجود ملک کے لوگ غریب ہیں جبکہ سیاسی اور فوجی اشرافیہ انتہائی دولت مند ہیں۔ گزشتہ سات دہائیوں میں چھوٹی سی اشرافیہ من مانی قانون سازی کے ذریعے عوامی اور ریاستی اثاثہ جات کی مالک بن گئی ہے۔ جمہوریت کے ذریعے یہ لوگ ایسے قوانین بناتے ہیں جن سے ان کے کاروباری مفادات کو فائدہ حاصل ہوا ور وہ اپنے اثاثوں کو ٹیکسوں سے بھی محفوظ کرلیں۔ اپنے اثاثوں اور دولت کو محفوظ بنانے کے ساتھ ساتھ اس اشرافیہ کو جمہوریت نے یہ حق بھی دیا ہے کہ وہ اپنے غیر ملکی آقاؤں اور سرپرستوں کے مفادات کو بھی پورا کریں اور معاشرے کے حقوق پر ڈاکہ ڈالیں۔ تو جمہوریت کا" شکریہ " جس کے ذریعے پاکستان میں حکمرانوں نے اپنی اپنی مدت کے دوران بہت بڑی تعداد میں دولت جمع کی ، اپنے مغربی آقاوں کی خاطر پاکستان کو معاشی دلدل میں دھکیلا اور خارجہ تعلقات میں پاکستان کو ذلت آمیز مقام پر لا کھڑا کیا۔
جمہوریت کو مزید وقت دینے سے حالات بہتر نہیں ہو سکتے ۔یہ ایک احمقانہ بات ہو گی کہ جمہوریت کو کام کرنے کے لیے مزید وقت دیا جائے کیونکہ درحقیقت وہ اپنا کام پہلے سے ہی کررہی ہے جو کہ اشرافیہ کے چھوٹے سے گروہ کا تحفظ کرنا اور عوام کا استحصال کرناہے۔ موجودہ نظام سے تبدیلی کی امید لگانا ایک خوش فہمی ہے چاہے ایک درجن مزید انتخابات ہی کیوں نہ کرا لیے جائیں۔ اورعوام کی دولت پر دونوں ہاتھوں سے ڈاکے ڈالنے کے بعد جب یہ جمہوری اشرافیہ انتخابات کے دنوں میں چند دنوں کے لیے عوام کو اپنا چہرہ دکھاتی بھی ہے توچند ایک سڑکوں اور اسکولوں کی تعمیر کو اپنے کارنامے کے طور پر پیش کرتی ہے ، تاکہ ہم انہیں ڈاکہ ڈالنے کےلیے ایک اور موقع دیتے ہوئے دوبارہ منتخب کر لیں۔ تویقیناً مغربی اقوام پورے جوش و خروش سے پاکستان میں جمہوریت کی حمایت کریں گی اور اس کی بقاء کے لیے دل کھول کر اپنا مال بھی صرف کریں گی کیونکہ جمہوریت نے مغرب کے لیے بغیر کسی تعطل کے ایسے حکمرانوں کی سپلائی کو جاری و ساری رکھا جنہوں نے استعماری مفادات کے تحفظ کے لیے قانون سازی کی جبکہ جمہوریت نے مسلمانوں کو بدحال اور محروم رکھا اور اس نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی کسی بھی کوشش کو روکے رکھا۔ اگر کوئی مسلمان اس جمہوری نظام میں ووٹ ڈالتا بھی ہے تو وہ ''بُروں میں سے سب سے کم برے''کو ووٹ ڈالتا ہےاور ایک بڑے چور کے مقابلے میں چھوٹے چور کا انتخاب کرتا ہے۔
مسلم امت کی اصل خواہش ایک اسلامی نظام ہے۔ عیسائی ریاستوں کے برخلاف ،اسلامی ریاست نے لوگوں پر ظلم نہیں کیا تھا اور نہ انہیں ان کے حقوق سے محروم رکھا تھا۔ کئی صدیوں تک مسلمانوں کی ریاست خلافت مذہب،مسلک یا جنس کی بنیاد پر کوئی امتیاز کیے بغیر،انسانیت کے لیے ایک روشن مینار تھی چاہے اس کا تعلق صنعت سے ہو یا پھرزراعت،طب اور دیگرسائنسی علوم سے یا پھر انسانوں کو حقوق کی فراہمی سے۔ یہ دنیا بھر کے مہاجرین کے لیے جائے پناہ تھی جیسا کہ پندرھویں صدی عیسوی میں اسپین کے عیسائیوں کے ظلم و ستم سے بھاگ کر آنے والے یہودیوں نے خلافت میں پناہ حاصل کی۔ لہٰذا عیسائی لوگوں کے مقابلے میں جنہوں نے کرپٹ مذہبی حکمرانی کی جگہ کرپٹ جمہوریت کو قبول کرلیا،مسلمانوں کو اس حل کو قبول کرنے کی ہرگز ضرورت نہیں ہے۔
اسلام اس بنیاد ہی کو ختم کردیتا ہے جو لوگوں کے امور سے غفلت کا باعث بنتی ہے جو کہ جمہوریت ہے۔مسلمان کلمہ ''لا الہ الا اللہ'' پر ایمان رکھتے ہیں جس کا مطلب ہے صرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہی اس بات کا تعین کرنے کا حق رکھتا ہے کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔ جبکہ جمہوریت کی بنیادآمریت کی طرح اس کلیہ پر ہے کہ صحیح اور غلط کے تعین کا اختیار انسان کے پاس ہے۔اس بات کے باوجود کہ انسانی ذہن کے پاس محدود علم ہے ، وہ فیصلے کرنے میں غلطی کرتا ہے اور اس قابل بھی نہیں کہ ذاتی مفاد سے مکمل طور پربےغرض ہوجائے ، جمہوریت میں انسانی ذہن کو ہی صحیح اور غلط کے تعین کے لیے پیمانہ بنایا جاتا ہے۔ پس جمہوریت نےانسانوں کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ قانون سازی کر کےدوسرے انسانوں پر ظلم کو جائز بنا لیں۔
اسلام کے نظام خلافت میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے۔ اس کے بعد اس معاملے میں کسی اور کو فیصلے کا اختیار سرے سے حاصل ہی نہیں ہوتا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا، (وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلاَ مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمْ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلاَلاً مُبِينًا)''اللہ اور اس کا رسول جب کوئی فیصلہ کریں تو کسی مؤمن مرد یا عورت کے لیے اس فیصلے میں کوئی اختیار نہیں۔ اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے وہ صریح گمراہ ہوگیا۔ '' (الاحزاب،33:36)۔ اس کے برعکس جمہوریت میں اسمبلیوں میں موجود مرد اور خواتین خودمختار ہوتے ہیں کہ وہ اپنی خواہشات کے مطابق قوانین کو اختیار کریں یا انہوں وضع کریں۔ اور یہی اختیار اور اس کا قانونی استعمال ہے جو جمہوریت میں کرپشن کا سب سے بڑا ذریعہ بنتا ہے۔
اب یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ اقتدار میں خواہ ن لیگ ہو، پیپلز پارٹی ہو یا پی ٹی آئی، لیکن جب تک نظام جمہوریت کا ہی رہے گا، تو ایسے میں ان سیاسی جماعتوں سے کسی قابل قدر تبدیلی کی آخر کیا توقع کی جاسکتی ہے؟ پاکستان کے مسلمانوں کو اور امت مسلمہ کو درپیش مسائل کا حل اس وقت تک نہیں نکل سکتا جب تک کہ اس نظام کی جگہ پر اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے نازل کردہ نظام کو نافذ نہ کر دیا جائے۔
بلاگ: غزالی فاروق بلاگ | Ghazali Farooq Blog
جہاں جمہوریت رائج ہوتی ہے وہاں عوام کی اکثریت لازماً اشرافیہ کے ایک مختصرگروہ کے ہاتھوں استحصال کاشکار ہوجاتی ہے۔یہ ایک عالمی حقیقت ہے کہ عمومی طور پر و ہی لوگ امیر ترین ہیں جنہیں سیاست دانوں کی بلا واسطہ یا بل واسطہ مدد و حمایت اور سیاسی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے۔جیمز میڈیسن (James Madison) نے، جو کہ امریکی آئین کابانی تھا ، جمہوریت کی اس خاصیت کا یوں اظہار کیاکہ ''جاگیرداروں کا حکومت میں حصہ ہونا چاہیے تا کہ اِن انتہائی اہم مفادات کا تحفظ کیا جائے اور دوسری (یعنی عوام کی) طاقت کو کنٹرول اور توازن میں رکھا جائے۔ اور ان(جاگیرداروں) کو اس طرح اس نظام کا حصہ ہونا چاہئے کہ وہ دولت مند اقلیت کو اکثریت سے بچاسکیں''۔ مشہور امریکی ڈیموکریٹ رابرٹ کارلائل بیرڈ (Robert Carlyle Byrd) نے اپنے جمہوری ملک کی حقیقت کے متعلق یہ کہا کہ ''دولت مندوں کا انتظام و انصرام ،دولت مندوں کے ذریعے ،دولت مندوں کے لیے "۔بس فرق صرف اتنا ہے کہ جدید جمہوریتوں میں جاگیرداروں کی جگہ کارپوریٹ سرمایہ داروں،صنعت کاروں، بڑی بڑی جائیدادوں کے مالکوں اور سیاسی خاندانوں نے لے لی ہے۔
جمہوریت اشرافیہ کے ہاتھوں میں دولت کے ارتکاز کو یقینی بناتی ہے۔ جمہوریت میں دولت کے چند ہاتھوں میں مرتکز ہونے کو انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کے ذریعے قانونی تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔ سیاسی خاندان اس لیے دولت مند ہوجاتے ہیں کیونکہ وہ معاشرے میں موجود دولت کے بے پناہ وسائل کو ہڑپ کر لیتے ہیں۔خصوصاً ان کا نشانہ ریاستی ادارے اور عوامی اثاثہ جات، جیسےہتھیار سازی کے بڑے بڑے ادارے، بینک اور توانائی کی صنعت، وغیرہ ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ،برطانیہ اور فرانس میں بڑے بڑے سرمایہ داروں کے خاندان حکمرانی میں ہوتے ہیں۔ دولت انتہاء درجے مرتکز ہو چکی ہے یہاں تک کہ 90فیصد دولت محض 5فیصد لوگوں میں محدود ہے۔ بھارت میں جمہوریت ستر سال سے بھی زائد عرصے سے بغیر کسی رکاوٹ کے جاری و ساری ہے اوراس کا نتیجہ یہ ہے کہ ایک طرف انتہائی دولت مند براہمن اشرافیہ ہے جبکہ دوسری طرف عوام ہیں جو لاکھوں کی تعداد میں غربت کے ہاتھوں خودکشیاں کرنے پر مجبورہیں۔
پاکستان میں جمہوریت اشرافیہ اور استعماردونوں کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے۔پاکستان میں بھی سیاست دان جمہوریت میں کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری کرتے ہیں تا کہ اپنی دولت میں بے تحاشہ اضافہ کرسکیں۔ تو یہ کہاوت حقیقتاً جمہوریت کے لیے موزوں ہے کہ ''طاقت کرپٹ کرتی ہے اور مکمل طاقت مکمل طور پر کرپٹ کردیتی ہے''۔ لہٰذا پاکستان میں جمہوریت ہی وہ وجہ ہے کہ قدرتی وسائل سے مالامال ہونے کے باوجود ملک کے لوگ غریب ہیں جبکہ سیاسی اور فوجی اشرافیہ انتہائی دولت مند ہیں۔ گزشتہ سات دہائیوں میں چھوٹی سی اشرافیہ من مانی قانون سازی کے ذریعے عوامی اور ریاستی اثاثہ جات کی مالک بن گئی ہے۔ جمہوریت کے ذریعے یہ لوگ ایسے قوانین بناتے ہیں جن سے ان کے کاروباری مفادات کو فائدہ حاصل ہوا ور وہ اپنے اثاثوں کو ٹیکسوں سے بھی محفوظ کرلیں۔ اپنے اثاثوں اور دولت کو محفوظ بنانے کے ساتھ ساتھ اس اشرافیہ کو جمہوریت نے یہ حق بھی دیا ہے کہ وہ اپنے غیر ملکی آقاؤں اور سرپرستوں کے مفادات کو بھی پورا کریں اور معاشرے کے حقوق پر ڈاکہ ڈالیں۔ تو جمہوریت کا" شکریہ " جس کے ذریعے پاکستان میں حکمرانوں نے اپنی اپنی مدت کے دوران بہت بڑی تعداد میں دولت جمع کی ، اپنے مغربی آقاوں کی خاطر پاکستان کو معاشی دلدل میں دھکیلا اور خارجہ تعلقات میں پاکستان کو ذلت آمیز مقام پر لا کھڑا کیا۔
جمہوریت کو مزید وقت دینے سے حالات بہتر نہیں ہو سکتے ۔یہ ایک احمقانہ بات ہو گی کہ جمہوریت کو کام کرنے کے لیے مزید وقت دیا جائے کیونکہ درحقیقت وہ اپنا کام پہلے سے ہی کررہی ہے جو کہ اشرافیہ کے چھوٹے سے گروہ کا تحفظ کرنا اور عوام کا استحصال کرناہے۔ موجودہ نظام سے تبدیلی کی امید لگانا ایک خوش فہمی ہے چاہے ایک درجن مزید انتخابات ہی کیوں نہ کرا لیے جائیں۔ اورعوام کی دولت پر دونوں ہاتھوں سے ڈاکے ڈالنے کے بعد جب یہ جمہوری اشرافیہ انتخابات کے دنوں میں چند دنوں کے لیے عوام کو اپنا چہرہ دکھاتی بھی ہے توچند ایک سڑکوں اور اسکولوں کی تعمیر کو اپنے کارنامے کے طور پر پیش کرتی ہے ، تاکہ ہم انہیں ڈاکہ ڈالنے کےلیے ایک اور موقع دیتے ہوئے دوبارہ منتخب کر لیں۔ تویقیناً مغربی اقوام پورے جوش و خروش سے پاکستان میں جمہوریت کی حمایت کریں گی اور اس کی بقاء کے لیے دل کھول کر اپنا مال بھی صرف کریں گی کیونکہ جمہوریت نے مغرب کے لیے بغیر کسی تعطل کے ایسے حکمرانوں کی سپلائی کو جاری و ساری رکھا جنہوں نے استعماری مفادات کے تحفظ کے لیے قانون سازی کی جبکہ جمہوریت نے مسلمانوں کو بدحال اور محروم رکھا اور اس نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی کسی بھی کوشش کو روکے رکھا۔ اگر کوئی مسلمان اس جمہوری نظام میں ووٹ ڈالتا بھی ہے تو وہ ''بُروں میں سے سب سے کم برے''کو ووٹ ڈالتا ہےاور ایک بڑے چور کے مقابلے میں چھوٹے چور کا انتخاب کرتا ہے۔
مسلم امت کی اصل خواہش ایک اسلامی نظام ہے۔ عیسائی ریاستوں کے برخلاف ،اسلامی ریاست نے لوگوں پر ظلم نہیں کیا تھا اور نہ انہیں ان کے حقوق سے محروم رکھا تھا۔ کئی صدیوں تک مسلمانوں کی ریاست خلافت مذہب،مسلک یا جنس کی بنیاد پر کوئی امتیاز کیے بغیر،انسانیت کے لیے ایک روشن مینار تھی چاہے اس کا تعلق صنعت سے ہو یا پھرزراعت،طب اور دیگرسائنسی علوم سے یا پھر انسانوں کو حقوق کی فراہمی سے۔ یہ دنیا بھر کے مہاجرین کے لیے جائے پناہ تھی جیسا کہ پندرھویں صدی عیسوی میں اسپین کے عیسائیوں کے ظلم و ستم سے بھاگ کر آنے والے یہودیوں نے خلافت میں پناہ حاصل کی۔ لہٰذا عیسائی لوگوں کے مقابلے میں جنہوں نے کرپٹ مذہبی حکمرانی کی جگہ کرپٹ جمہوریت کو قبول کرلیا،مسلمانوں کو اس حل کو قبول کرنے کی ہرگز ضرورت نہیں ہے۔
اسلام اس بنیاد ہی کو ختم کردیتا ہے جو لوگوں کے امور سے غفلت کا باعث بنتی ہے جو کہ جمہوریت ہے۔مسلمان کلمہ ''لا الہ الا اللہ'' پر ایمان رکھتے ہیں جس کا مطلب ہے صرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہی اس بات کا تعین کرنے کا حق رکھتا ہے کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔ جبکہ جمہوریت کی بنیادآمریت کی طرح اس کلیہ پر ہے کہ صحیح اور غلط کے تعین کا اختیار انسان کے پاس ہے۔اس بات کے باوجود کہ انسانی ذہن کے پاس محدود علم ہے ، وہ فیصلے کرنے میں غلطی کرتا ہے اور اس قابل بھی نہیں کہ ذاتی مفاد سے مکمل طور پربےغرض ہوجائے ، جمہوریت میں انسانی ذہن کو ہی صحیح اور غلط کے تعین کے لیے پیمانہ بنایا جاتا ہے۔ پس جمہوریت نےانسانوں کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ قانون سازی کر کےدوسرے انسانوں پر ظلم کو جائز بنا لیں۔
اسلام کے نظام خلافت میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے۔ اس کے بعد اس معاملے میں کسی اور کو فیصلے کا اختیار سرے سے حاصل ہی نہیں ہوتا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا، (وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلاَ مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمْ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلاَلاً مُبِينًا)''اللہ اور اس کا رسول جب کوئی فیصلہ کریں تو کسی مؤمن مرد یا عورت کے لیے اس فیصلے میں کوئی اختیار نہیں۔ اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے وہ صریح گمراہ ہوگیا۔ '' (الاحزاب،33:36)۔ اس کے برعکس جمہوریت میں اسمبلیوں میں موجود مرد اور خواتین خودمختار ہوتے ہیں کہ وہ اپنی خواہشات کے مطابق قوانین کو اختیار کریں یا انہوں وضع کریں۔ اور یہی اختیار اور اس کا قانونی استعمال ہے جو جمہوریت میں کرپشن کا سب سے بڑا ذریعہ بنتا ہے۔
اب یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ اقتدار میں خواہ ن لیگ ہو، پیپلز پارٹی ہو یا پی ٹی آئی، لیکن جب تک نظام جمہوریت کا ہی رہے گا، تو ایسے میں ان سیاسی جماعتوں سے کسی قابل قدر تبدیلی کی آخر کیا توقع کی جاسکتی ہے؟ پاکستان کے مسلمانوں کو اور امت مسلمہ کو درپیش مسائل کا حل اس وقت تک نہیں نکل سکتا جب تک کہ اس نظام کی جگہ پر اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے نازل کردہ نظام کو نافذ نہ کر دیا جائے۔
بلاگ: غزالی فاروق بلاگ | Ghazali Farooq Blog