ghazalifarooq
New Reader
قرآن مجید کی کچھ آیات سے سیکولر اور دین کے دشمنوں کو بے چینی لاحق ہے، ان کی یہ مذموم خواہش ہے کہ کسی طرح ان شاندار آیات کو باطل اور لغو ثابت کردیں۔ ان آیاتِ کریمہ کو سامنے رکھ کر شرانگیز لوگوں نے اپنی بہتان تراشیوں اورجھوٹے الزامات کے تیراسلام پر برسانے شروع کر رکھے ہیں ۔ ان میں سے ایک نمایاں آیت یہ ہے : (فَلِلذَّكَرِ مِثۡلُ حَظِّ ٱلۡأُنثَيَيۡنِۗ)۔" پس مرد کاحصہ دو عورتوں کےبرابر ہے۔" ۔ پروپیگنڈا کرنے والوں نے اسلام پر مردوں کا جانب دار ہونے اور عورت کے ساتھ ناانصافی روا رکھنے کا الزام عائد کیا، کیونکہ اسلام وراثت میں عورت کو مردکے حصے کا آدھا دینے کا حکم دیتا ہے، بار بار دُہرائے جانے والے اس جھوٹ کی وجہ سے بعض مسلمان گومگو کا چکار ہو گئے اور وہ اس بات سے قاصر سے تھے اس کا کیا جواب دیا جائے۔ اگر یہ جھوٹے لوگ اسلام کے ظہور سے پہلے عورت کے حالات کو بنظر انصاف دیکھتے ، بلکہ آج اس مغربی تہذیب کے سائے تلے عورت کی زندگی جس نہج پر پہنچی ہوئی ہے اس پر نظر ڈالتے، پھر اس کا عادلانہ تقابل اس مقام و مرتبہ اور عزت و احترام کے ساتھ کرتے جو اسلام نے عورت کو دیا ہے، تو اسلام کی طرف ایسی جھوٹی تہمتوں کی نسبت کرنے سے پہلے ہی ان کی زبانیں شل ہوجاتیں۔
دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ تیونس جیسی کچھ عرب حکومتوں کی دلیری اور جرات اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ انہوں نے کچھ عرصہ پہلے ایک قانون پاس کیا ،جس کے مطابق مرد وعورت کو وراثت میں برابر کا حصہ دار قرار دیا گیا ہے، جو اللہ کی صریح آیات کوچیلنج کرناہے۔ یہ اقدام 23/11/2018 کو اٹھایا گیا۔ یہ سادہ لوح کیوں نہیں سمجھتے کہ یہ کام کرکے انہوں نے عورت کو کئی حقوق سے محروم کردیا ،جو اس کو اسلامی وراثت کے نظام کے تحت حاصل ہوتے ہیں!! آج تیونس میں اس قانون کی بدولت عورت کو میراث میں اس حصے سے کم مل رہا ہے جو اللہ کی طرف سے اس کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔ ایسا کیوں کر ہے؟اور کیا عورت ہر حالت میں مرد کے حصے کے نصف کے برابر وراثت میں حصہ پاتی ہے؟
اسلامی نظامِ وراثت کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ چند مضبوط معیاروں یا پیمانوں پر استوار نظام ہے، جن میں عدل اور بہبود عامہ کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ یہ معیارات مرد وعورت کے درمیان مطلقاًفرق و امتیاز سے خالی ہیں، کیونکہ قرآن نے یہ نہیں کہا کہ (يوصيكم الله في ورثتكم للذكر مثل حظ الأنثيين)، جس کے معنی ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے ورثا کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ مرد کے لیے عورت سے دوگنا ۔ بلکہ کہا کہ (اولادِکم)"تمہاری اولاد کے بارے میں(حکم دیتا ہے)"۔ اس لیے یہ تقسیم وراثت کی مستقل حالت نہیں، کہ عورت کا حصہ مرد کے حصے کا ہمیشہ نصف ہی ہو۔ بلکہ وراثت کی تقسیم میں شریعت نے دیگر ایسے چند پیمانوں کو ملحوظ رکھا ہے جو متعین ہیں۔
پہلا: وارث ( خواہ مذکر ہو یا مؤنث) اور میت کےدرمیان رشتہ داری اور قرابت کا درجہ۔ چنانچہ جوں جوں رشتہ قریب ہوتا جاتا ہے ،توں توں میراث میں سے حاصل ہونے والاحصہ بھی بڑھتا جاتا ہے، مثلاً : میت کی بیٹی میت کے شوہر سے زیادہ حصہ لیتی ہے، کیونکہ رشتے میں بیٹی کی قرابت اپنی مری ہوئی ماں کے ساتھ ،میت کی اپنے شوہر کے ساتھ قرابت سے زیادہ ہے، اس کے باوجود کہ بیٹی عورت اور شوہر مرد ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ مردہونایا عورت ہونا وہ اصل کَسوَٹی نہیں، جس پر شریعت حصوں کے حوالے سے اعتماد کرتی ہو۔
دوسرا: ایک کے بعد ایک آنے والی نسل کا مقام ونمبر،چنانچہ یہ ملحوظ رکھا گیا ہے کہ وراثت پانے والی نسل کا مقام کیا ہے۔ تو آئندہ کی نسلوں کا وراثت میں حصہ عام طور پرپچھلی نسل سے بڑا ہوتا ہے، اس میں اس بات کو قطع نظر کیا جاتا ہے کہ ورثاء مرد ہیں یا عورتیں۔ پس بیٹی اپنی والدہ سے زیادہ حصہ پالیتی ہے، حالانکہ دونوں مؤنث ہیں۔ بلکہ کبھی اپنے والد سے بھی زیادہ حصہ لیتی ہے۔ اور بیٹا اپنے والد سے زیادہ لے لیتا ہے۔ حالانکہ دونوں مذکر ہیں۔
تیسرا: مالی ذمہ داری؛ جس میں شریعت وارث پر لازم قرار دیتی ہے کہ وہ دوسروں کے لیے کوئی ذمہ داری انجام دے۔ یہی وہ معیار ہے جس کی بنیاد پر مرد وعورت کے درمیان کچھ فرق جنم لیتا ہے،جس کو اس آیت نے بیان کیا ہے: (یُوصِيكُمُ ٱللَّهُ فِيٓ أَوۡلَٰدِكُمۡۖ لِلذَّكَرِ مِثۡلُ حَظِّ ٱلۡأُنثَيَيۡنِۚ) کیونکہ یہاں جو مذکر وارث ہے (جوقرابت کے درجے اور نسل کے لحاظ سے مونث کے ساتھ یکساں صورتِ حال میں ہے ) مؤنث کی دیکھ بھال کا بھی مکلف ہے، جبکہ مؤنث (وراثت پانے والی عورت) پر کوئی مالی ذمہ داری نہیں ڈالی گئی ۔جب ہم وراثت کی تمام مختلف صورتوں کا موازنہ کریں تو مذکورہ فرق والی صورتیں محدود ہیں۔ اسی اسلامی منطق کی بنا پر اسلام نے وراثت میں عورت کو مرد سے مختلف کردیا ہے۔ مذکر وارث کو زیادہ دے کر عورت پر ظلم نہیں کیا گیا، بلکہ عورت کومالیاتی تحفظ فراہم کیا گیا ہے ،تاکہ وہ بُرے حالات سے محفوظ رہ سکے نیز کمزور سمجھ کر ظلم کیے جانے سے اپنے آپ کو بچا سکے۔
آئیے ان حالات پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں جن میں عورت شرعِ حنیف کے مطابق وراثت میں حصہ وصول کرتی ہے، اور یہ دیکھیں کہ جیسے یہ جھوٹے لوگ بہتان لگا تے ہیں ، کیا واقعی اس کا حصہ کم رکھا گیا ہے۔
ہمیں نظر آتا ہے کہ وراثت کے باب میں اسلامی فقہ نے چونتیس صورتیں متعین کی ہیں ،جن میں عورت مختلف نسبتوں سے وراثت لیتی ہے، پس تقریبا ً گیارہ حالات یا صورتیں ایسے ہیں جن میں عورت بالکل مرد کے برابر ہوتی ہے، باقی میں سے چودہ صورتیں وہ ہیں جن میں عورت مرد سے زیادہ حصہ وصول کرتی ہے۔ پانچ حالتوں میں عورت کی وجہ سے مرد وراثت سے ہی محروم کردیا جاتا ہے اور وراثت پوری کی پوری عورت لے لیتی ہے۔ صرف چار حالتوں میں ایک مرد کو دو عورتوں کے برابر دیا جاتا ہے۔
مرد وعورت کو برابر حصہ ملنے کی چند مثالیں:
ماں باپ میں سے ہر ایک کو وراثت میں چھٹا حصہ دیا گیا ہے، اللہ سبحانہ و تعالی فرماتا ہے: )وَلِأَبَوَيۡهِ لِكُلِّ وَٰحِدٖ مِّنۡهُمَا ٱلسُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِن كَانَ لَهُۥ وَلَدٞۚ( "اور مرنے والے کے والدین میں سے ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا، بشرطیکہ اس کی کوئی اولاد ہو۔"
ماں شریک بہن بھائیوں کی میراث : مردوں ا ور عورتوں کے درمیان برابر تقسیم کی جاتی ہے ،اس صورت میں مرد وارث میں سےاتنا ہی لیتا ہے جتنا عورت لیتی ہے۔ بشرطیکہ میت کی کوئی فرعی یعنی اپنی اولاد موجود نہ ہو۔ اس کے لیے فرمایا ہے وَإِن كَانَ رَجُلٞ يُورَثُ كَلَٰلَةً أَوِ ٱمۡرَأَةٞ وَلَهُۥٓ أَخٌ أَوۡ أُخۡتٞ فَلِكُلِّ وَٰحِدٖ مِّنۡهُمَا ٱلسُّدُسُۚ فَإِن كَانُوٓاْ أَكۡثَرَ مِن ذَٰلِكَ فَهُمۡ شُرَكَآءُ فِي ٱلثُّلُثِۚ)" اور اگر وہ مرد یا عورت جس کی میراث تقسیم ہونی ہے، ایسا ہو کہ نہ اس کے والدین زندہ ہوں نہ اولاد، اور اس کا ایک بھائی یا ایک بہن زندہ ہو تو ان میں سے ہر ایک چھٹے حصے کا حق دار ہے۔اور اگر وہ اس سے زیادہ ہوں تو وہ سب ایک تہائی میں شریک ہوں گے۔"
عورت کو مرد سے زیادہ حصہ ملنے کی چند مثالیں:
وراثت کے بعض حالتوں میں ہم دیکھتے ہیں کہ عورت مرد سے کئی گنا بڑھ کر لیتی ہے، قرآن کی واضح آیت اس پر دلالت کررہی ہے(فَإِن كُنَّ نِسَآءٗ فَوۡقَ ٱثۡنَتَيۡنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَۖ وَإِن كَانَتۡ وَٰحِدَةٗ فَلَهَا ٱلنِّصۡفُۚ وَلِأَبَوَيۡهِ لِكُلِّ وَٰحِدٖ مِّنۡهُمَا ٱلسُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِن كَانَ لَهُۥ وَلَدٞ)۔ " اور اگر (صرف )عورتیں ہی ہو ں، دو یا دو سے زیادہ، تو مرنے والے نے جو کچھ چھوڑا ہو، انہیں اس کا دو تہائی حصہ ملے گا۔ اور اگر صرف ایک عورت ہو تو اسے( ترکے کا )آدھا حصہ ملے گا۔اور مرنےوالے کے والدین میں سے ہر ایک کو ترکے کا چھٹا حصہ ملے گا، بشرطیکہ مرنے والے کی کوئی اولاد ہو۔"
ایک اور مثال : ایک آدمی ایک بیٹی اور باپ چھوڑ کر مرا۔ اس صورت میں باپ کا چھٹا حصہ ہے، جو ایک بیٹی یا کئی بیٹیوں کے حصے سے بہت تھوڑا ہے، تو یہاں تو کسی نے مساوات کی بات نہیں کی،کسی نے یہ نہیں کہا کہ یہاں باپ کی عزت و احترام کو بٹا لگ گیا ہے۔
ایک اور مثال: ایک آدمی کی وفات ہوئی، اور ایک بیٹی اور اپنے دو سگے بھائی چھوڑے، اس صورت میں بیٹی کو پورے ترکے کا آدھا حصہ ملے گا، (بھلے وہ کروڑوں اربوں میں ہوں) ایک تو وہ اکیلی ہے دوسرا اس کے ساتھ کوئی اور عصبہ رشتے دار بھی موجود نہیں، جو ان کے ساتھ برابر کا شریک ہو(عصبہ وہ رشتہ دار کہلاتا ہے، جو متعین حصوں کے مطابق مال تقسیم ہونے کے بعد بچا ہوا مال لیتا ہے ) اور میت کے دو سگے بھائیوں کو تعصیب کے طور پر آپس باقی مال برابر بر ابر ملے گا، مطلب ہر سگے بھائی کو چوتھائی چوتھائی ملے گا، یہاں بھی مرد کا حصہ عورت کے حصے سے بہت کم ہے۔
ایک اور مثال :جب ایک عورت کی وفات ہوجائے، اس کے ورثااس کا شوہر اور بیٹی ہوں، تو اس صورت میں بیٹی کے لیے آدھا حصہ متعین ہے،شوہر کے لیے چوتھائی حصہ متعین ہے،اندازہ کریں کہ یہاں ایک عورت یعنی میت کی بیٹی اپنے والد سے دو گنُا زیادہ لیتی ہے،(کیونکہ والد کو چوتھائی ملا ہے۔آدھا چوتھائی کا دگنا ہوتا ہے) ۔
عورت کو حصہ ملنے جبکہ مرد کو حصہ نہ ملنے کی چند مثالیں :
ایک مثال: ایک شخص ایک بیٹے ایک بیٹی اور دو سگے بھائیوں کو چھوڑ کر مرے، پس بیٹا اور بیٹی سارا ترکہ لیں گے، اور بھائی کو بہن کے مقابلے میں دگنا ملے گا، جبکہ دو سگے بھائیوں کو کچھ بھی نہیں دیا جاتا ہے، سگے بھائی میت کی اپنی اولاد کی وجہ سے محروم ہوجاتے ہیں۔ تو دیکھیے اس صورت میں بیٹی تو میراث میں اپنا حصہ پاتی ہے ،مگر میت کا سگا بھائی محروم رہ جاتا ہے۔
ایک اور مثال : ایک آدمی ایک نانی اور نانا کو چھوڑ مرا،(یعنی ان کے علاوہ کوئی اور وارث موجود نہیں) اس صورت میں نانی سارا ترکہ بطور وراثت حاصل کرے گی،علم المیراث میں نانی جدہ صحیح کے نام سے مشہور ہے، لیکن پورا ترکہ لینے کے معنی یہ ہیں کہ پہلے اس کو چھٹا حصہ بطور فرض ملتا ہے،اور باقی ترکہ بھی اسی طرف لوٹا دیاجاتا ہے جس کو رد ّ کہتے ہیں۔جد یعنی نانا کو کچھ نہیں ملتا، جو کہ نانی کا میاں ہے، حالانکہ میت کی نسبت سے نانا کا درجہ نانی کے برابر ہے۔سارا ترکہ نانی لے گی کیونکہ نانی ذوی الفروض میں سے ہے، یعنی جن کو متعین حصہ دیا گیا ہے، جبکہ نانا ذوی الارحام میں سے ہے، اسلام کے قانون وراثت کے مطابق ذوی الفروض کی موجودگی میں ذوی الارحام کو کچھ نہیں ملتا، جد اور جدہ کے حوالے سے قانون وراثت میں جد صحیح کا ذکر بھی آتا ہے، جد صحیح وہ ہے کہ میت کی طرف اس کی نسبت اور رشتے میں ماں داخل نہ ہو، اگر ماں درمیان میں آتی ہو جیسے ماں کا والد یعنی نانا یا ماں کی ماں کا والد یعنی پڑ دادا، تو وہ جد فاسد کہلاتا ہے،( یعنی یہ وارث نہیں )
عورت کے ساتھ اسلام کے عدل و انصاف کی یہ صرف چند مثالیں ہیں، اہل علم و انصاف اس کو مانتے ہیں۔ سبحان اللہ یہ دین کتنا عظیم دین ہے، لیکن جنہوں نے اپنی ذات، اپنی عقل و آخرت کو مغرب کو بیچ دیا ہے، وہ اس دین سے کتنے اندھیرے میں ہیں، ایسے لوگ اپنی دنیا وآخرت کا نقصان کر بیٹھتے ہیں۔ایسے اشخاص کی اکثریت کو اسلامی نظام وراثت سے متعلق یکسر علم نہیں ہوتا، اور ان تیس حالات کا انہیں کچھ بھی پتہ نہیں، جن میں عورت مرد کے برابر یا اس سے زیادہ وراثت پاتی ہے، بلکہ ان میں سے بعض ایسے حالات بھی ہیں جہاں صرف عورت ہی کو وراثت ملتی ہے ، مرد کو کچھ بھی نہیں ملتا۔دراصل ان کا اصل ہدف فقط اسلام پر طعن ہے اس کے سوا کچھ نہیں!!
اسلام سے پہلے عورت کا وراثت میں کوئی حق تھا، نہ ہی اس کو کوئی معاشی تحفظ حاصل تھا، نہ ہی اس کو زندگی کا کوئی حق دیا جاتا تھا اورزندہ دفن کی جاتی تھی، اسلام نے آکر اس کو عزت دی ، اس کا قتل حرام قرار دیا، مرد پر اس کی دیکھ بھال اور اس پر خرچ کرنا لازم قرار دیا، اس کو ایسے حقوق دلوائے کہ جس کی وجہ سےایک مسلمان عورت دنیا بھر کی عورتوں کے سامنے بجا طور پر فخر کرسکتی ہے۔
بلاگ: غزالی فاروق بلاگ | Ghazali Farooq Blog