ghazalifarooq
New Reader
مسجد اقصیٰ پر یہودی قابض وجود کے حملے کے خلاف پاکستان کے مسلمانوں کے غیظ و غضب کے مسلسل اظہار کے پورے 36 گھنٹوں بعد 9 مئی 2021 کی سہ پہر 03:54 کو پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان صاحب نے ایک ٹویٹ جاری کرتے ہوئے اعلان کیا ، "رمضان المبارک کے دوران اسرائیلی فوجیوں کے قبلہ اول یعنی مسجدِ اقصی میں اہلِ فلسطین پر حملے کی شدید مذمت اور اہلِ فلسطین کی حمایت کا اعادہ کرتے ہیں۔ عالمی برادری فلسطینی عوام اور ان کے حقوق کے تحفظ کےلیے فوری تدبیر کرے"۔
اسی طرح باقی مسلم ممالک بھی آہستہ آہستہ اور ایک ایک کر کے اپنی غفلت کی نیند سے بیدار ہوئے اور ان کی جانب سے بھی مذمتی بیانات آنا شروع ہوئے۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ ترکی کا صدر اور اُردن کابادشاہ اسرائیلی حملوں کو روکنے کےلیے باہمی تعاون پر زور دے رہے ہیں ۔ ترک صدر اسرائیل پردباؤ ڈالنے کےلیےسفارتی ذرائع استعمال کرنے کے حامی ہیں۔ اردن کی حکومت کہتی ہے کہ ہم غزہ میں اسرائیلی فوجی آپریشن کی مذمت کرتے ہیں اور صورت حال کو عالمی سطح پر اجاگرکرنے کے لیے اپنے دوستوں سےرابطے میں ہیں۔سعودی عرب کی جانب سے مسجد الاقصیٰ پر یہودی حملے کی سخت الفاظ میں مذمت پر اکتفا کیا جا رہا ہے۔ابو ظہبی کےولی عہد القدس میں ہر قسم کے تشدد اور نفرت کی مذمت کرتےہیں۔مصر کی حکومت مسجد الاقصیٰ پر حملے کو بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کہہ کر سخت الفاظ میں مذمت کرتی ہے اور جنگ بندی کے لیے حماس اور یہود سے رابطے کرتی ہے۔اسلامی تعاون تنظیم (او۔آئی۔ سی۔) کا سربراہ مسجد الاقصیٰ کے پہرے داروں کے حوصلے کو خراج تحسین پیش کرتاہے۔ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کہتے ہیں کہ فلسطین کےمسئلے کا واحد حل یہ ہے کہ اس سرزمین کے باسیوں کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے ریفرنڈم کیا جائے۔کویت کےامیر بھی مذمت کر کے خوشی محسوس کر رہےہیں۔اردن کے وزیر خارجہ کہتےہیں کہ ہم نے واشنگٹن سمیت دنیا بھرسے رابطہ کیا ہے کہ مشرقی یروشلم میں واقع "شیخ جراح" نامی علاقے کے لوگوں کو پناہ گزین بننے پر مجبور نہ کیاجائے۔
رسوائے زمانہ یہودی وجود فلسطین کے ہر گوشے پر حملہ آور ہے، خاص کر رسول اللہ ﷺ کے مقامِ اسراء (مسجد الاقصیٰ) اوربہادروں کی زمین غزہ پر۔ ایسے میں درختوں اور عمارتوں کو جلایا جا رہا ہے،اہلِ فلسطین کا خون بے دریغ بہایا جارہا ہے اور بڑی تعداد میں فلسطین کے نہتے مسلمان بشمول بچے اور عورتیں شہید ہورہے ہیں۔ لیکن حسب معمول عالمِ اسلام پر حکمرانی کرنے والے محض شہداء اور زخمیوں کی گنتی کررہے ہیں۔ یہ حکمران مغرب کے حکمرانوں کی ناراضگی سے بچنے کے لئے اس یہودی جارحیت اور خونریزی کی صرف اور صرف مذمت ہی کرتے نظر آ رہے ہیں۔ وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے اس ارشاد کو بھلائے بیٹھے ہیں : ﴿وَقَالُوا رَبَّنَا إِنَّا أَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَاءَنَا فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا﴾ "اور کہیں گے کہ اے ہمارے رب! ہم نے اپنے بڑوں اور سرداروں کی اطاعت کی، تو انہوں نے ہمیں گمراہ کر دیا"( الاحزاب: 67 )۔ اور اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد: ﴿إِذْ تَبَرَّأَ الَّذِينَ اتُّبِعُوا مِنَ الَّذِينَ اتَّبَعُوا وَرَأَوُا الْعَذَابَ وَتَقَطَّعَتْ بِهِمُ الْأَسْبَابُ﴾ "اُس دن وہ لوگ کہ جن کی تابعداری کی جاتی تھی، اُن لوگوں سے بیزاری ظاہر کریں گے کہ جو تابعداری کیاکرتے تھے، اوردونوں عذاب کو دیکھ لیں گے اور ان کے آپس کے تعلقات منقطع ہو جائیں گے" (البقرۃ:166)۔
جہاں تک بین الاقوامی برادری سے احتجاج کرنے اور اس سے درخواستیں کرنے کی بات ہے تو یہ تو وہ ہے جس نے جنگ عظیم اول کے خاتمے کے بعد یہودی وجود کا خنجر خود اس امت مسلمہ کے قلب میں پیوست کیا تھا۔ جب 9 دسمبر 1917 کو برطانیہ نے فلسطین پر قبضہ کیا تو مسلمانوں کے اس اور اس جیسے دیگر علاقوں پر اپنے ناجائز قبضوں کو قانونی حیثیت دینے کے لیے اسی عالمی برادری نے 10 جنوری 1920 کو " لیگ آف نیشنز" کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جس نے اپنے بننے کے صرف 3ماہ کے قلیل عرصہ میں برطانیہ کے فلسطین پر مینڈیٹ کا اعلان کرتے ہوئے اس کے قبضے کو قانونی قرار دیا ۔ اور ناصرف یہ، بلکہ اس نے برطانیہ پر یہ بھی لازم قرار دیا کہ وہ فلسطین کی سرزمین پر یہودیوں کی آباد کاری کو یقینی بنائے گا جس کا وعدہ برطانیہ نے 2 نومبر 1917 کو یہودی برادری کو جاری کیے جانے والے بیلفور اعلامیہ (Balfour Declaration) میں کیا تھا کہ وہ فلسطین پر قبضے کے بعد انہیں فلسطین کی سرزمین پر ایک مستقل رہائش گاہ میسر کرے گا۔
لہٰذا وہ عالمی برادری اس مسٔلہ کا حل کیسے ہو سکتی ہے جو خود اس مسٔلہ کی براہ راست اور اصل ذمہ دار ہے ؟یہ عالمی برادری ہی ہے جو مسلم حکمرانوں پر دباؤ ڈال رہی ہے کہ وہ یہودی ریاست کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لائیں جس کے نتیجہ میں کچھ ہی عرصہ قبل 15 ستمبر 2020 کو متحدہ عرب امارات اور بحرین نے اس یہودی وجود کو تسلیم کیا تھا جبکہ ترکی، مصر، اردن اور فلسطینی لبریشن آرگینائیزیشن (PLO) تو پہلے سے ہی اسے تسلیم کیے بیٹھے ہیں۔ لیکن وہ بین الاقوامی برادری ہر گز نہیں جس کی مسجد اقصٰی منتظر ہے ،بلکہ مسجد اقصیٰ مسلمانوں کی مسلح افواج کے ٹیپو سلطان اور صلاح الدین ایوبی کے انتظار میں ہے جو آگے بڑھنے اور یہودی وجود پر جھپٹنے کیلئے اپنے حکمرانوں کے ایک اشارے کے منتظر ہیں۔ جن کے ایس ایس جی دستوں کے قدموں کی دھمک سے زمین لرز اٹھے، جن کی فضائیہ کے لڑاکا طیاروں کے گھن گرج سے آسمان کانپ اٹھیں اور بزدل یہودی دشمن ان کی دھاک سے دہشت زدہ ہو جائے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَا لَكُمْ إِذَا قِيلَ لَكُمُ انفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ ۚ أَرَضِيتُم بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا مِنَ الْآخِرَةِ ۚ فَمَا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا قَلِيلٌ﴾﴿إِلَّا تَنفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا أَلِيمًا وَيَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ وَلَا تَضُرُّوهُ شَيْئًا ۗ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ﴾''اے ایمان والو! تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ جب تم سے اللہ کی راہ میں نکلنے کو کہا جاتا ہے تو تم مضبوطی سے زمین سے چمٹ کر رہ گئے؟ کیا تم آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کو پسند کر لیا؟ (اگر ایسا ہے تو جان لو کہ) دنیا کی زندگی آخرت کے مقابلے میں بہت تھوڑی ہے۔ اگرتم آگے نہیں بڑھتے تواللہ تمہیں تکلیف دہ عذاب سے دوچار کرے گا اورتمہاری جگہ اور لوگوں کولے آئے گا اور تم اس کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکو گے۔بےشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔'' (التوبۃ، 39-38)۔
یہ بات اب اس امت کے بچے بچے کے سامنے روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ مسٔلہ فلسطین کا حل نہ تو مزمتی بیانات جاری کرنے میں ہے اور نہ ہی ان مجرم اور بے حس مغربی حکمرانوں پر مبنی عالمی برادری کو قائل کرنے کی بے کار کوششوں میں ہے۔ یہ مسٔلہ ایک ریاستی اور فوجی جارحیت کا مسٔلہ ہے۔ یہ مسٔلہ ایک نا جائز اور زبر دستی قبضے کا مسٔلہ ہے۔ لہٰذا دو ریاستی حل بھی اس کا حل نہیں۔ کیونکہ یہ حل بھی اس ناجائز اور قابض ریاست کو جائز تسلیم کر لینے پر اور اس ناسور کو مستقل طور پر مسلمانوں کے قلب میں جگہ دے دینے پر مبنی ہے۔ اس کا حل صرف اور صرف ایک ہے۔ اور وہ ریاستی سطح پر اٹھایا گیا بھرپور فوجی اقدام ہے۔ لہٰذا جب تک مسلم افواج فلسطین کو آزاد کرانے اور اسرائیل کی اس ناجائز اور قابض ریاست کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کے لیے نہیں نکلیں گی، فلسطین جلتا رہے گا اور امت کے جسم کے اس دہائیوں پرانے زخم سے خون بدستور رستا رہے گا۔
بلاگ: غزالی بلاگ
ای میل: ghazalifarooq.columnist@gmail.com
ٹوئیٹر: https://twitter.com/GhazaliFarooq8
اسی طرح باقی مسلم ممالک بھی آہستہ آہستہ اور ایک ایک کر کے اپنی غفلت کی نیند سے بیدار ہوئے اور ان کی جانب سے بھی مذمتی بیانات آنا شروع ہوئے۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ ترکی کا صدر اور اُردن کابادشاہ اسرائیلی حملوں کو روکنے کےلیے باہمی تعاون پر زور دے رہے ہیں ۔ ترک صدر اسرائیل پردباؤ ڈالنے کےلیےسفارتی ذرائع استعمال کرنے کے حامی ہیں۔ اردن کی حکومت کہتی ہے کہ ہم غزہ میں اسرائیلی فوجی آپریشن کی مذمت کرتے ہیں اور صورت حال کو عالمی سطح پر اجاگرکرنے کے لیے اپنے دوستوں سےرابطے میں ہیں۔سعودی عرب کی جانب سے مسجد الاقصیٰ پر یہودی حملے کی سخت الفاظ میں مذمت پر اکتفا کیا جا رہا ہے۔ابو ظہبی کےولی عہد القدس میں ہر قسم کے تشدد اور نفرت کی مذمت کرتےہیں۔مصر کی حکومت مسجد الاقصیٰ پر حملے کو بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کہہ کر سخت الفاظ میں مذمت کرتی ہے اور جنگ بندی کے لیے حماس اور یہود سے رابطے کرتی ہے۔اسلامی تعاون تنظیم (او۔آئی۔ سی۔) کا سربراہ مسجد الاقصیٰ کے پہرے داروں کے حوصلے کو خراج تحسین پیش کرتاہے۔ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کہتے ہیں کہ فلسطین کےمسئلے کا واحد حل یہ ہے کہ اس سرزمین کے باسیوں کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے ریفرنڈم کیا جائے۔کویت کےامیر بھی مذمت کر کے خوشی محسوس کر رہےہیں۔اردن کے وزیر خارجہ کہتےہیں کہ ہم نے واشنگٹن سمیت دنیا بھرسے رابطہ کیا ہے کہ مشرقی یروشلم میں واقع "شیخ جراح" نامی علاقے کے لوگوں کو پناہ گزین بننے پر مجبور نہ کیاجائے۔
رسوائے زمانہ یہودی وجود فلسطین کے ہر گوشے پر حملہ آور ہے، خاص کر رسول اللہ ﷺ کے مقامِ اسراء (مسجد الاقصیٰ) اوربہادروں کی زمین غزہ پر۔ ایسے میں درختوں اور عمارتوں کو جلایا جا رہا ہے،اہلِ فلسطین کا خون بے دریغ بہایا جارہا ہے اور بڑی تعداد میں فلسطین کے نہتے مسلمان بشمول بچے اور عورتیں شہید ہورہے ہیں۔ لیکن حسب معمول عالمِ اسلام پر حکمرانی کرنے والے محض شہداء اور زخمیوں کی گنتی کررہے ہیں۔ یہ حکمران مغرب کے حکمرانوں کی ناراضگی سے بچنے کے لئے اس یہودی جارحیت اور خونریزی کی صرف اور صرف مذمت ہی کرتے نظر آ رہے ہیں۔ وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے اس ارشاد کو بھلائے بیٹھے ہیں : ﴿وَقَالُوا رَبَّنَا إِنَّا أَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَاءَنَا فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا﴾ "اور کہیں گے کہ اے ہمارے رب! ہم نے اپنے بڑوں اور سرداروں کی اطاعت کی، تو انہوں نے ہمیں گمراہ کر دیا"( الاحزاب: 67 )۔ اور اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد: ﴿إِذْ تَبَرَّأَ الَّذِينَ اتُّبِعُوا مِنَ الَّذِينَ اتَّبَعُوا وَرَأَوُا الْعَذَابَ وَتَقَطَّعَتْ بِهِمُ الْأَسْبَابُ﴾ "اُس دن وہ لوگ کہ جن کی تابعداری کی جاتی تھی، اُن لوگوں سے بیزاری ظاہر کریں گے کہ جو تابعداری کیاکرتے تھے، اوردونوں عذاب کو دیکھ لیں گے اور ان کے آپس کے تعلقات منقطع ہو جائیں گے" (البقرۃ:166)۔
جہاں تک بین الاقوامی برادری سے احتجاج کرنے اور اس سے درخواستیں کرنے کی بات ہے تو یہ تو وہ ہے جس نے جنگ عظیم اول کے خاتمے کے بعد یہودی وجود کا خنجر خود اس امت مسلمہ کے قلب میں پیوست کیا تھا۔ جب 9 دسمبر 1917 کو برطانیہ نے فلسطین پر قبضہ کیا تو مسلمانوں کے اس اور اس جیسے دیگر علاقوں پر اپنے ناجائز قبضوں کو قانونی حیثیت دینے کے لیے اسی عالمی برادری نے 10 جنوری 1920 کو " لیگ آف نیشنز" کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جس نے اپنے بننے کے صرف 3ماہ کے قلیل عرصہ میں برطانیہ کے فلسطین پر مینڈیٹ کا اعلان کرتے ہوئے اس کے قبضے کو قانونی قرار دیا ۔ اور ناصرف یہ، بلکہ اس نے برطانیہ پر یہ بھی لازم قرار دیا کہ وہ فلسطین کی سرزمین پر یہودیوں کی آباد کاری کو یقینی بنائے گا جس کا وعدہ برطانیہ نے 2 نومبر 1917 کو یہودی برادری کو جاری کیے جانے والے بیلفور اعلامیہ (Balfour Declaration) میں کیا تھا کہ وہ فلسطین پر قبضے کے بعد انہیں فلسطین کی سرزمین پر ایک مستقل رہائش گاہ میسر کرے گا۔
لہٰذا وہ عالمی برادری اس مسٔلہ کا حل کیسے ہو سکتی ہے جو خود اس مسٔلہ کی براہ راست اور اصل ذمہ دار ہے ؟یہ عالمی برادری ہی ہے جو مسلم حکمرانوں پر دباؤ ڈال رہی ہے کہ وہ یہودی ریاست کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لائیں جس کے نتیجہ میں کچھ ہی عرصہ قبل 15 ستمبر 2020 کو متحدہ عرب امارات اور بحرین نے اس یہودی وجود کو تسلیم کیا تھا جبکہ ترکی، مصر، اردن اور فلسطینی لبریشن آرگینائیزیشن (PLO) تو پہلے سے ہی اسے تسلیم کیے بیٹھے ہیں۔ لیکن وہ بین الاقوامی برادری ہر گز نہیں جس کی مسجد اقصٰی منتظر ہے ،بلکہ مسجد اقصیٰ مسلمانوں کی مسلح افواج کے ٹیپو سلطان اور صلاح الدین ایوبی کے انتظار میں ہے جو آگے بڑھنے اور یہودی وجود پر جھپٹنے کیلئے اپنے حکمرانوں کے ایک اشارے کے منتظر ہیں۔ جن کے ایس ایس جی دستوں کے قدموں کی دھمک سے زمین لرز اٹھے، جن کی فضائیہ کے لڑاکا طیاروں کے گھن گرج سے آسمان کانپ اٹھیں اور بزدل یہودی دشمن ان کی دھاک سے دہشت زدہ ہو جائے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَا لَكُمْ إِذَا قِيلَ لَكُمُ انفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ ۚ أَرَضِيتُم بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا مِنَ الْآخِرَةِ ۚ فَمَا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا قَلِيلٌ﴾﴿إِلَّا تَنفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا أَلِيمًا وَيَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ وَلَا تَضُرُّوهُ شَيْئًا ۗ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ﴾''اے ایمان والو! تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ جب تم سے اللہ کی راہ میں نکلنے کو کہا جاتا ہے تو تم مضبوطی سے زمین سے چمٹ کر رہ گئے؟ کیا تم آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کو پسند کر لیا؟ (اگر ایسا ہے تو جان لو کہ) دنیا کی زندگی آخرت کے مقابلے میں بہت تھوڑی ہے۔ اگرتم آگے نہیں بڑھتے تواللہ تمہیں تکلیف دہ عذاب سے دوچار کرے گا اورتمہاری جگہ اور لوگوں کولے آئے گا اور تم اس کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکو گے۔بےشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔'' (التوبۃ، 39-38)۔
یہ بات اب اس امت کے بچے بچے کے سامنے روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ مسٔلہ فلسطین کا حل نہ تو مزمتی بیانات جاری کرنے میں ہے اور نہ ہی ان مجرم اور بے حس مغربی حکمرانوں پر مبنی عالمی برادری کو قائل کرنے کی بے کار کوششوں میں ہے۔ یہ مسٔلہ ایک ریاستی اور فوجی جارحیت کا مسٔلہ ہے۔ یہ مسٔلہ ایک نا جائز اور زبر دستی قبضے کا مسٔلہ ہے۔ لہٰذا دو ریاستی حل بھی اس کا حل نہیں۔ کیونکہ یہ حل بھی اس ناجائز اور قابض ریاست کو جائز تسلیم کر لینے پر اور اس ناسور کو مستقل طور پر مسلمانوں کے قلب میں جگہ دے دینے پر مبنی ہے۔ اس کا حل صرف اور صرف ایک ہے۔ اور وہ ریاستی سطح پر اٹھایا گیا بھرپور فوجی اقدام ہے۔ لہٰذا جب تک مسلم افواج فلسطین کو آزاد کرانے اور اسرائیل کی اس ناجائز اور قابض ریاست کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کے لیے نہیں نکلیں گی، فلسطین جلتا رہے گا اور امت کے جسم کے اس دہائیوں پرانے زخم سے خون بدستور رستا رہے گا۔
بلاگ: غزالی بلاگ
ای میل: ghazalifarooq.columnist@gmail.com
ٹوئیٹر: https://twitter.com/GhazaliFarooq8