• Dear readers, our reading section is temporarily offline as we’re redeveloping it from scratch to provide you with an even better reading experience. Stay tuned!

Urdu Column SBP sovereignty, another economic maelstrom by Ghazali Farooq

ghazalifarooq

New Reader
state-bank-pakistan.jpg

اس وقت پاکستان کے معاشی حلقے میں جو بحث سب سے زیادہ گرم ہے وہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا ترمیمی بل 2021 ہے جس کی وفاقی کابینہ نے منظوری دے دی ہے اور اب ایک صدارتی آردیننس کے ذریعے اس کو قانون بنانے کی تیاری کی جارہی ہے جس کے بعد یہ نافذ العمل ہوجائے گا۔ اس قانون کے تحت اسٹیٹ بینک کو اتنے وسیع اختیارات تفویض ہوجائیں گے کہ اس کی حیثیت ایک قومی اور حکومتی ادارے کی بجائے ایک آزاداور نجی ادارے جیسی ہوجائے گی جس پر حکومت پاکستان کا کوئی کنٹرول باقی نہیں رہے گا۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی حقیقت حکومتی خزانے یا بیت المال جیسی ہے ، کیونکہ ملک کے واحد سونے کے ذخائر جو کہ تقریبا 65 ٹن ہیں ، یہاں موجود ہیں ۔ اسی طرح زرمبادلہ یعنی بیرونی کرنسی کے بھی کم و بیش 90 فیصد ذخائر یہاں موجود ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ جو بھی بیرونی ادائیگیاں ہوتی ہیں وہ کمرشل بینکوں کے ذریعے اس وقت تک نہیں ہوسکتی جب تک اسٹیٹ بینک ان کی منظوری نہ دے ۔ اسی طرح پاکستانی روپے کی چھپائی کا اختیار اور ملک میں شرح سود کے تعین کا اختیار بھی اسٹیٹ بینک کے پاس ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام جس کا بنیادی تصور آزادی ملکیت پر مبنی ہے، آزاد معیشت (Free Market Economy) کی بات کرتا ہے ۔ 1980s کی دہائی سے مغربی دنیا میں معاشی آزادی ) Economic Liberalization (کی لہر کا باقاعدہ طور پر آغاز ہوا جس کے تحت انہوں نے معیشت میں حکومتی کردار کو محدود سے محدود تر کرنا شروع کردیا ، اور اپنے حکومتی اثاثوں کی نجکاری شروع کردی۔ اپنی فیکٹریاں ، بینک ، ریلوے ، ائر پورٹ، بندر گاہیں یہاں تک کہ فوج بھی نجی ملکیت میں دینا شروع کردی ۔ اور اب اپنے انہی تصورات کو وہ تیسری دنیا کے ممالک بشمول مسلم ممالک پر مسلط کررہے ہیں اور اس کو ایک کامیاب معاشی ماڈل کے طور پر پیش کررہے ہیں ، حالانکہ ان معاشی پالیسیوں کے نتیجے میں مغرب میں امیراور غریب کے درمیان خلیج وسیع ہوئی ہے ، تعلیم اور صحت جیسی بنیادی سہولیات کے اخراجات میں اضافہ ہوا ہے ، مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے ، بے گھر لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور عام آدمی پر سودی قرضوں کے بوجھ میں اضافہ ہوا ہے ۔ لوگوں کی پوری زندگی گزر جاتی ہے لیکن وہ اپنے سودی قرضوں سے جان نہیں چھڑاپاتے اور اس کی تازہ مثال 2007 میں آنے والا عالمی معاشی بحران تھا جب ایک بڑی تعداد میں لوگ گھروں پر حاصل کیے گئے سودی قرضوں کی ادائیگی سے عاجز تھے جس کے نتیجے میں مالیاتی ادارے دیوالیہ ہوگئے۔

1990s کی دہائی سے پاکستان میں بھی نجکاری کی لہر کا آغاز ہوا جس کے تحت اب تک درجنوں بینک،کے ای ایس سیKESC اور پی ٹی سی ایل PTCL جیسے نجانے کتنے ادارے اونے پونے داموں میں فروخت کر دیے گئے جبکہ پاکستان اسٹیل مل اور پی آئی اے کی نجکاری کے لیے بھی بھرپور کوششیں جاری ہیں ۔ اسی سلسلے کی اگلی کڑی اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو حکومتی کنٹرول سے نکال کر خود مختار بنانا ہے ۔ حکومت پاکستان جب آخری بار 2019 میں آئی ایم ایف IMF کے پروگرام میں داخل ہوئی تھی اور 6 ارب ڈالر کا قرضہ حاصل کیا تھا ، تو اس قرضے کی شرائط میں اسٹیٹ بینک کی آزادی یا وسیع خودمختاری بھی شامل تھی ۔ اس سلسلہ میں رضا باقر صاحب کی گورنر اسٹیٹ بینک کے طور پر اور پھر مرتضیٰ سید کی ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک کے طور پر تعیناتی اس مقصد کے حصول کے لیے مثالی ثابت ہو گی۔

ویسے تو بظاہر اسٹیٹ بینک ترمیمی بل 2021 سے اسٹیٹ بینک کی براہ راست نجکاری نہیں ہورہی لیکن جو اختیارات اسٹیٹ بینک کے گورنر کو دیے جارہے ہیں اس کے نتیجے میں وہ حکومت پاکستان کا ملازم نہیں رہے گا اور نہ ہی حکومت پاکستان کو جوابدہ ہوگا بلکہ اس کی حیثیت کسی بھی کمرشل بینک کے CEO جیسی ہوگی جو بینک کے مفادات کو پیش نظر رکھ کر پالیسیاں بنائے گا نہ کہ حکومت پاکستان کے مفادات کو ۔

اس وقت جب کہ اسٹیٹ بینک حکومت کے کنٹرول میں ہے تو جب بھی حکومت پاکستان کو اپنے اخراجات میں تنگی کا سامنا ہوتا ہے جیسے ترقیاتی منصوبوں کے لیے فنڈز کی کمی یا حکومتی اور فوجی ملازمین کی تنخواہیں وغیرہ، تو حکومت پاکستان اسٹیٹ بینک سے ضرورت کے مطابق روپیہ چھپوا کر اندرونی قرضے ((internal debtکے طور پر حاصل کرلیتے ہیں ۔ یقیناً اس کے نتیجے میں معاشرے میں افراط زر پیدا ہوتا ہے جس پر قابو پانے کے لیے اسٹیٹ بینک حکومتی ہدایات پر شرح سود کو بڑھا دیتا ہے ، لیکن اس سے جو دوسرا مسئلہ پیدا ہوتا ہے وہ یہ کہ اس طرح معاشرے میں معاشی اور کاروباری سرگرمیاں ماند پڑ جاتی ہیں کیونکہ لوگ اپنا روپیہ کاروبار میں لگانے کی بجائے سیونگ اکاؤنٹس (saving accounts) میں رکھوا دیتے ہیں اور جس کسی کو کاروباری قرضہ چاہیے ہوتا ہے وہ اس لیے نہیں لیتا کیونکہ اس کو لوٹانے میں اس کو بھاری سود ادا کرنا پڑتا ہے ۔ یوں معاشرے میں تجارتی سرگرمیاں سست روی کا شکار ہوجاتی ہیں اور نتیجتاً بے روزگاری جیسے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔

لیکن مسٔلہ یہ ہے کہ اگر حکومت ایسا سب کچھ نہ بھی کرے تو بھی مسائل پیدا ہوں گے ۔کیونکہ اس بل کے تحت اسٹیٹ بینک کے حکومتی کنٹرول سے نکل جانے اور خود مختار ہو جانے کے بعد حکومت اسٹیٹ بینک سے اپنی ضرورت کے مطابق نوٹ چھپوا کر اندرونی قرضہ حاصل نہیں کر پائے گی۔ یوں وہ ترقیاتی منصوبوں پر خرچ نہ کر سکے گی اور نہ ہی حکومتی ملازمین کو تنخواہیں دے پائے گی ۔یعنی حکومت کے ہاتھ بندھ جائیں گے ۔ علاوہ ازیں آئی ایم ایف IMF اور عالمی بینک (World Bank) کے لیے اسٹیٹ بینک آف پاکستان پر اثر انداز ہونا بہت آسان ہو جائے گا اور اس کو وہ اپنے دیرینہ مطالبات پورے کرنے کے لیے استعمال کر سکے گا مثلاً پاکستانی کرنسی کو فری فلوٹ (free float) کرنا جس کے نتیجے میں پاکستانی روپیہ تیزی سے اپنی قدر کھوئے گا یعنی ڈی ویلیو devalue) (ہوگا ۔ نتیجتاً درآمدات مہنگی ہوں گی اور برآمدات سستی ہو جائیں گی اور ملک میں مہنگائی کا ایک طوفان برپا ہو گا۔

یعنی دونوں صورتوں میں نقصان ہے، چاہے اسٹیٹ بینک کو حکومتی کنٹرول میں برقرار رکھا جائے یا اسے خود مختار کر دیا جائے۔اور ایسا صرف اور صرف اس سرمایہ دارانہ نظام اور اس کی معاشی پالیسیوں کی وجہ سے ہے جو کہ اس وقت پاکستان سمیت پوری دنیا میں رائج ہے، کیونکہ یہ نظام کام ہی ایسے کرتا ہے۔لیکن افسوس ہے ہماری اشرافیہ پر جو ایک معاشی گرداب سے نکل کر دوسرے معاشی گرداب میں داخل ہونے کا فیصلہ کرنے جا رہے ہیں۔ یعنی جس سرمایہ دارانہ نظام کے باعث ہم زبوں حالی کا شکار ہیں ، اسی نظام کو بطور حل پیش کیا جارہا ہے ۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے ایک زہر ہمارے جسم کو بیمار کررہا ہے لیکن ہم دوا کی بجائے اسی زہر(یعنی سرمایہ دارانہ معاشی نظام) کو دوا سمجھ کر پئے جا رہے ہیں، جس سے ہماری بیماری میں اضافہ ہی ہوگا نا کہ افاقہ۔

شیطانی گردابوں کے اس گھن چکر سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے معاشی نظام کی مکمل تبدیلی۔ اور وہ اس صورت میں ممکن ہے اگر اسلام کے معاشی نظام کی جانب رجوع کیا جائے ، جس میں ریاست کو سونے اور چاندی کے ذخائر سے زیادہ مالیت کی کرنسی چھاپنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ لہٰذا افراط زر (inflation) نہیں ہوتا اور سود پر مبنی اندرونی قرضے (internal debt) سے بھی جان چھوٹ جاتی ہے ۔ جہاں تک حکومت کا ترقیاتی منصوبے ، حکومتی ملازمین کی تنخواہیں اور اپنے دیگر خرچے پورا کرنے کی بات ہے تو ریاست اسلام کا نظام محصولات رائج کرتی ہے جو زکوٰۃ، خراج، عشر، جزیہ، فے، رکاز اور حمیٰ وغیرہ پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ ریاست اپنی ملکیت میں شامل زمینوں بشمول کھیتوں، جنگلوں، ساحلوں اور دیگر ریاستی پراپرٹی مثلاً مختلف انواع کی عمارتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے بھی اپنے اموال میں خاطر خواہ اضافہ کرسکتی ہے تا کہ لوگوں کے امور کی دیکھ بھال کرنے سے متعلق اپنے فرائض کو احسن طریقے سے سر انجام دے سکے ۔اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِىْ فَاِنَّ لَـهٝ مَعِيْشَةً ضَنْكًا وَّنَحْشُـرُهٝ يَوْمَ الْقِيَامَةِ اَعْمٰى ہ قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِىٓ اَعْمٰى وَقَدْ كُنْتُ بَصِيْـرًا ہ قَالَ كَذٰلِكَ اَتَـتْكَ اٰيَاتُنَا فَـنَسِيْتَـهَا ۖ وَكَذٰلِكَ الْيَوْمَ تُنْسٰى (ترجمہ)"اور جو میرے ذکر سے منہ پھیرے گا تو اس کی معیشت بھی تنگ کر دی جائے گی اور اسے قیامت کے دن اندھا کر کے اٹھایا جائے گا۔وہ کہے گا: اے میرے رب! تو نے مجھے اندھا کر کے کیوں اٹھایا حالانکہ میں دنیا میں نظر رکھتا تھا؟۔ (اللہ )فرمائے گا: اسی طرح تیرے پاس ہماری آیتیں پہنچی تھیں پھر تو نے انھیں فراموش کر دیا تھا۔ اسی طرح آج تو بھی فراموش کر دیا گیا ہے"۔ (سورۃ طہ : 124-126)
 
Top Bottom