ghazalifarooq
New Reader
ایک حالیہ شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق امریکی انٹیلی جنس برادری کا اندازہ ہے کہ افغان حکومت مکمل امریکی انخلاء کے بعد زیادہ سے زیادہ چھ ماہ سے ایک سال کے دوران طالبان کے ہاتھوں ختم ہوجائے گی۔ وال اسٹریٹ جرنل کی جانب سے جاری کردہ یہ رپورٹ امریکی انٹیلی جنس برادری کےپچھلے زیادہ امید افزا اندازوں کے برخلاف ہے جن میں یہ کہا گیا تھا کہ افغان حکومت امریکی انخلاء کے بعد دو سال تک برقرار رہ سکے گی۔ افغانستان کی تیزی کے ساتھ بدلتی ہوئی صورتحال میں امریکہ کی انٹیلی جنس برادری نے اپنے پچھلے اندازوں کو تبدیل کردیا ہے، کیونکہ گزشتہ چند روز میں طالبان نے افغانستان میں اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ افغان حکومت کی فوج اس وقت طالبان کے خلاف مختلف مقامات پر محاذ آرا ہیں لیکن طالبان ایران، تاجکستان، ترکمانستان، چین اور پاکستان پر مشتمل پانچ ممالک کے ساتھ قائم مرکزی بارڈر کراسنگ پر کنٹرول حاصل کر چکےہیں۔ خود طالبان کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ افغانستان کے 85 فیصد علاقے پر کنٹرول حاصل کر چکے ہیں۔ لیکن بعض ذرائع کے مطابق افغانستان کے تقریباً 400 اضلاع میں سے ابھی تک ایک تہائی کا کنٹرول طالبان کے ہاتھ میں آیا ہے۔
آج امریکہ بگرام ائیربیس کو رات کی تاریکی میں اور مکمل خاموشی کے ساتھ چھوڑ کر بھاگ چکا ہے۔ یہ وہ فضائی اڈہ تھا جو افغانستان میں امریکا کا بنیادی جنگی مرکز تھا اور دسیوں ہزار امریکی فوجیوں کا گڑھ بھی تھا۔ لیکن امریکہ کو برسرپیکار جنگجوؤں کا خوف اس قدرزیادہ تھا کہ امریکہ نے اس معاملہ میں افغان حکومت کو بھی اپنے اعتماد میں لینا مناسب نہ سمجھا کہ کہیں جنگجوؤں کو کان و کان خبر نہ ہو جائے اور وہ بھاگتی ہوئی امریکی افواج کو نشانہ نہ بنا لیں۔ اور نہ ہی امریکہ یہ چاہتا ہے کہ اس کی فوج کی ویسی ہی تصویریں میڈیا کی زینت بنیں جو ویتنام سے بھاگتے ہوئے بنیں تھیں!
یہ بات بہت عرصے سے واضح ہو چکی تھی کہ امریکہ افغانستان میں اپنے قبضے کے خلاف جاری مزاحمت کو ختم کرنے میں ناکام ہو چکا ہے، جسے افغان قبائلی آبادی کی حمایت اور شمولیت حاصل تھی۔ امریکہ نے خود بھی یہ تسلیم کر لیا تھا کہ اس کی کابل میں قائم کٹھ پتلی حکومت بھی ملک کے کئی علاقوں پر اپنا کنٹرول اور اختیار لاگو کرنے میں ناکام ہے۔ لہٰذا امریکہ نےطالبان کے ساتھ اِس امید پر سفارتی حل کا رستہ اختیار کیا کہ جو مقصد وہ جنگ کے ذریعے حاصل نہیں کرسکا تھا وہ اس طرح سے حاصل کرلے گا۔ لیکن امریکہ مذاکرات کے ذریعے بھی مکمل سفارتی کامیابی اور اپنی مرضی کا سیٹ اپ حاصل نہیں کرسکا کیونکہ مذاکرات کرنے والے افغان مجاہدین کی مکمل نمائندگی نہیں کرتے بلکہ اس کے ایک حصے کی نمائندگی کرتے ہیں۔
یہ بات امریکہ کو گوارا نہیں کہ وہ افغانستان سے ایسے انخلاء کرے کہ خطے میں اس کا عمل دخل ہی ختم ہو جائے۔ امریکہ یہ خواہش رکھتا ہے کہ طالبان کابل حکومت کے اہم مراکز پر قبضہ نہ کرسکیں۔ امریکہ کو اس بات میں کوئی تامل نہیں اگر وہ افغانستان میں بھی عراق والی صورتحال کو دہراتا ہے، جہاں امریکہ نے عراق سے ایسی صورتحال میں انخلاء کیا تھا کہ ملک افراتفری کا شکار تھا، اور کسی بھی گروہ کو ملک پر مکمل کنٹرول حاصل نہ تھا، مخلص لوگ اقتدار سے باہر تھے اور بغداد کی کٹھ پتلی حکومت امریکی مفادات کا تحفظ کررہی تھی۔ عراق کی حکومت نے یہ کوشش نہیں کی تھی کہ اس کا اقتدار پورے ملک پر قائم ہوجائے، لیکن وہ اس قابل تھی کہ تیل کے کنوؤں کی حفاظت کرسکے جنہیں امریکی کمپنیاں لوٹ رہی تھیں۔ حکومت اس قابل بھی تھی کہ وہ عراق میں امریکہ مخالف لوگوں، چاہے وہ مسلمانوں میں سےہوں یا بعث پارٹی سے، مکمل اقتدارحاصل کرنے سے روک سکے۔لہٰذا اگر افغانستان کی صورتحال بھی عراق کی سی شکل اختیار کر لیتی ہے اور خونریزی جاری رہتی ہے تو ایسا امریکہ کے لیے قابل قبول ہو گا۔ اور امریکہ اس صورت حال کو چین اور روس کی راہ روکنے کے لیے بھی استعمال کر سکے گا جو افغانستان کے لیے اپنے منصوبے بنائے بیٹھے ہیں۔
لہٰذا امریکہ کی یہ خواہش ہے کہ طالبان افغانستان کے حساس علاقوں جیسا کہ کابل کا گرین زون، ائر پورٹ، سپلائی روٹس اور دیگر اہم تنصیبات پر قبضہ نہ کرسکیں اور ایسا وہ پاکستان اور ترکی جیسے ممالک کے تعاون اور ان کے اثر و رسوخ کو استعمال میں لا کر ممکن بنانا چاہتا ہے۔ چنانچہ امریکہ پاکستان پر Financial Action Task Force (FATF) کے ذریعے دباؤ کو برقرار رکھے ہوئے ہے جس نے پاکستان کو مزید ایک اور سال کے لیے 'گرے لسٹ' سے نکالنے سے انکار کر دیا ہے۔ پاکستانی حکومت اس وقت اعلانیہ طور پر تو امریکی دباؤ کے خلاف ردعمل ظاہر کر رہی ہے اور امریکی اڈوں کی اجازت دینے سے بھی انکار کر رہی ہے مگر دوسری طرف پاکستان نے امریکہ کے ساتھ 2001 ءمیں طے پائے جانے والے " ایئر لائن آف کمیونیکشن (اے ایل او سی) اور گراؤنڈ لائن آف کمیونیکشن (جی ایل او سی)" کی تجدید کر دی ہے بلکہ ان کے بارے میں برملا اعلان کیا جا رہا ہے کہ وہ معاہدے اب بھی اپنی جگہ برقرار ہیں! حقیقت تو یہ ہے کہ اشد ضرورت کے وقت پاکستان کے فرمانبردار حکمرانوں نے امریکہ کو کبھی مایوس نہیں کیا۔ پاکستان ہی وہ بڑا سہولت کار تھا جس کی مدد سے امریکہ افغانستان پر اپنے قبضے کو ممکن بنا پایا تھا۔ اور یہ پاکستان ہی تھا جس نے مزاحمت کاروں کے ساتھ مذاکرات کی بساط بچھانے میں امریکہ کی بھرپور مدد کی۔ اور اس وقت بھی امریکی افواج کے افغانستان سے انخلاء کے موقع پر اور اس کے نتیجہ میں افغانستان میں پیدا ہونے والی اندرونی صورتحال سے متعلق پاکستان کی جانب سے امریکہ کے لیے سہولت کاری زور و شور سے کے ساتھ جاری ہے۔ وزیراعظم عمران خان کا ازبکستان کا دورہ اسی سلسلے کی کڑی ہے، جبکہ اس سے کچھ ہی دن قبل ازبکستان کے وزیر خارجہ امریکہ کا دورہ کر واپس لوٹے ہیں۔
ہم نے ستر سال امریکی علاقائی منصوبوں کا ایندھن بن کر دیکھ لیا، اور ان منصوبوں میں اپنی ریاستی طاقت کا مشاہدہ بھی کر لیا کہ ہماری طاقت کے بل بوتے پر ہی امریکہ سوویت یونین کو شکست دینے میں کامیاب ہوا، پاکستان کے ذریعے ہی امریکہ نے دہائیوں تک بھارت کے ناک میں دم کیے رکھا اور پھر اسے اپنے کیمپ میں کھینچنے پر قادر ہوا۔ امریکہ وسطی ایشیا تک ہماری طاقت کو استعمال کرتا رہا۔ لیکن اس سب سے ہمیں کیا حاصل ہوا، سوائے یہ کہ ہمارا ملک دولخت ہوا، سیاچن اور تین دریا بھارت نے چھین لئے، اکسائی چن چین نے لے لیا، ہمارے قبائلی علاقے اور پھر پورا ملک انتشار کا شکار ہوا اور آج مقبوضہ کشمیر پر ہندو ریاست کے جبری قبضے پر ہم چپ سادھے بیٹھے ہیں، اور اسے سرکاری طور پر سرنڈر کرنے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ تو جب امریکہ ہماری طاقت کے بل بوتے پر پورے خطے میں اپنا کھیل کھیل کر اپنے استعماری مفادات حاصل کر سکتا ہے، تو ہم اس طاقت کی بنیاد پر اللہ کی رضا حاصل کرتے ہوئے اسے خطے کے مسلمانوں کے مفاد کے لیے کیوں استعمال نہیں کر سکتے؟ افغانستان میں ذلت آمیز شکست کے بعد یہ تصور کرنا محال ہے کہ امریکہ اب دوبارا اپنی فوجیں لے کے اس خطے پر حملہ آور ہو گا تو کیا اب وقت نہیں آ گیا کہ پاکستان جرات مندانہ قدم اٹھا کر خطے سے امریکی اثرورسوخ کا جڑ سے خاتمہ کردے؟
بلاگ: غزالی فاروق بلاگ | Ghazali Farooq Blog
آج امریکہ بگرام ائیربیس کو رات کی تاریکی میں اور مکمل خاموشی کے ساتھ چھوڑ کر بھاگ چکا ہے۔ یہ وہ فضائی اڈہ تھا جو افغانستان میں امریکا کا بنیادی جنگی مرکز تھا اور دسیوں ہزار امریکی فوجیوں کا گڑھ بھی تھا۔ لیکن امریکہ کو برسرپیکار جنگجوؤں کا خوف اس قدرزیادہ تھا کہ امریکہ نے اس معاملہ میں افغان حکومت کو بھی اپنے اعتماد میں لینا مناسب نہ سمجھا کہ کہیں جنگجوؤں کو کان و کان خبر نہ ہو جائے اور وہ بھاگتی ہوئی امریکی افواج کو نشانہ نہ بنا لیں۔ اور نہ ہی امریکہ یہ چاہتا ہے کہ اس کی فوج کی ویسی ہی تصویریں میڈیا کی زینت بنیں جو ویتنام سے بھاگتے ہوئے بنیں تھیں!
یہ بات بہت عرصے سے واضح ہو چکی تھی کہ امریکہ افغانستان میں اپنے قبضے کے خلاف جاری مزاحمت کو ختم کرنے میں ناکام ہو چکا ہے، جسے افغان قبائلی آبادی کی حمایت اور شمولیت حاصل تھی۔ امریکہ نے خود بھی یہ تسلیم کر لیا تھا کہ اس کی کابل میں قائم کٹھ پتلی حکومت بھی ملک کے کئی علاقوں پر اپنا کنٹرول اور اختیار لاگو کرنے میں ناکام ہے۔ لہٰذا امریکہ نےطالبان کے ساتھ اِس امید پر سفارتی حل کا رستہ اختیار کیا کہ جو مقصد وہ جنگ کے ذریعے حاصل نہیں کرسکا تھا وہ اس طرح سے حاصل کرلے گا۔ لیکن امریکہ مذاکرات کے ذریعے بھی مکمل سفارتی کامیابی اور اپنی مرضی کا سیٹ اپ حاصل نہیں کرسکا کیونکہ مذاکرات کرنے والے افغان مجاہدین کی مکمل نمائندگی نہیں کرتے بلکہ اس کے ایک حصے کی نمائندگی کرتے ہیں۔
یہ بات امریکہ کو گوارا نہیں کہ وہ افغانستان سے ایسے انخلاء کرے کہ خطے میں اس کا عمل دخل ہی ختم ہو جائے۔ امریکہ یہ خواہش رکھتا ہے کہ طالبان کابل حکومت کے اہم مراکز پر قبضہ نہ کرسکیں۔ امریکہ کو اس بات میں کوئی تامل نہیں اگر وہ افغانستان میں بھی عراق والی صورتحال کو دہراتا ہے، جہاں امریکہ نے عراق سے ایسی صورتحال میں انخلاء کیا تھا کہ ملک افراتفری کا شکار تھا، اور کسی بھی گروہ کو ملک پر مکمل کنٹرول حاصل نہ تھا، مخلص لوگ اقتدار سے باہر تھے اور بغداد کی کٹھ پتلی حکومت امریکی مفادات کا تحفظ کررہی تھی۔ عراق کی حکومت نے یہ کوشش نہیں کی تھی کہ اس کا اقتدار پورے ملک پر قائم ہوجائے، لیکن وہ اس قابل تھی کہ تیل کے کنوؤں کی حفاظت کرسکے جنہیں امریکی کمپنیاں لوٹ رہی تھیں۔ حکومت اس قابل بھی تھی کہ وہ عراق میں امریکہ مخالف لوگوں، چاہے وہ مسلمانوں میں سےہوں یا بعث پارٹی سے، مکمل اقتدارحاصل کرنے سے روک سکے۔لہٰذا اگر افغانستان کی صورتحال بھی عراق کی سی شکل اختیار کر لیتی ہے اور خونریزی جاری رہتی ہے تو ایسا امریکہ کے لیے قابل قبول ہو گا۔ اور امریکہ اس صورت حال کو چین اور روس کی راہ روکنے کے لیے بھی استعمال کر سکے گا جو افغانستان کے لیے اپنے منصوبے بنائے بیٹھے ہیں۔
لہٰذا امریکہ کی یہ خواہش ہے کہ طالبان افغانستان کے حساس علاقوں جیسا کہ کابل کا گرین زون، ائر پورٹ، سپلائی روٹس اور دیگر اہم تنصیبات پر قبضہ نہ کرسکیں اور ایسا وہ پاکستان اور ترکی جیسے ممالک کے تعاون اور ان کے اثر و رسوخ کو استعمال میں لا کر ممکن بنانا چاہتا ہے۔ چنانچہ امریکہ پاکستان پر Financial Action Task Force (FATF) کے ذریعے دباؤ کو برقرار رکھے ہوئے ہے جس نے پاکستان کو مزید ایک اور سال کے لیے 'گرے لسٹ' سے نکالنے سے انکار کر دیا ہے۔ پاکستانی حکومت اس وقت اعلانیہ طور پر تو امریکی دباؤ کے خلاف ردعمل ظاہر کر رہی ہے اور امریکی اڈوں کی اجازت دینے سے بھی انکار کر رہی ہے مگر دوسری طرف پاکستان نے امریکہ کے ساتھ 2001 ءمیں طے پائے جانے والے " ایئر لائن آف کمیونیکشن (اے ایل او سی) اور گراؤنڈ لائن آف کمیونیکشن (جی ایل او سی)" کی تجدید کر دی ہے بلکہ ان کے بارے میں برملا اعلان کیا جا رہا ہے کہ وہ معاہدے اب بھی اپنی جگہ برقرار ہیں! حقیقت تو یہ ہے کہ اشد ضرورت کے وقت پاکستان کے فرمانبردار حکمرانوں نے امریکہ کو کبھی مایوس نہیں کیا۔ پاکستان ہی وہ بڑا سہولت کار تھا جس کی مدد سے امریکہ افغانستان پر اپنے قبضے کو ممکن بنا پایا تھا۔ اور یہ پاکستان ہی تھا جس نے مزاحمت کاروں کے ساتھ مذاکرات کی بساط بچھانے میں امریکہ کی بھرپور مدد کی۔ اور اس وقت بھی امریکی افواج کے افغانستان سے انخلاء کے موقع پر اور اس کے نتیجہ میں افغانستان میں پیدا ہونے والی اندرونی صورتحال سے متعلق پاکستان کی جانب سے امریکہ کے لیے سہولت کاری زور و شور سے کے ساتھ جاری ہے۔ وزیراعظم عمران خان کا ازبکستان کا دورہ اسی سلسلے کی کڑی ہے، جبکہ اس سے کچھ ہی دن قبل ازبکستان کے وزیر خارجہ امریکہ کا دورہ کر واپس لوٹے ہیں۔
ہم نے ستر سال امریکی علاقائی منصوبوں کا ایندھن بن کر دیکھ لیا، اور ان منصوبوں میں اپنی ریاستی طاقت کا مشاہدہ بھی کر لیا کہ ہماری طاقت کے بل بوتے پر ہی امریکہ سوویت یونین کو شکست دینے میں کامیاب ہوا، پاکستان کے ذریعے ہی امریکہ نے دہائیوں تک بھارت کے ناک میں دم کیے رکھا اور پھر اسے اپنے کیمپ میں کھینچنے پر قادر ہوا۔ امریکہ وسطی ایشیا تک ہماری طاقت کو استعمال کرتا رہا۔ لیکن اس سب سے ہمیں کیا حاصل ہوا، سوائے یہ کہ ہمارا ملک دولخت ہوا، سیاچن اور تین دریا بھارت نے چھین لئے، اکسائی چن چین نے لے لیا، ہمارے قبائلی علاقے اور پھر پورا ملک انتشار کا شکار ہوا اور آج مقبوضہ کشمیر پر ہندو ریاست کے جبری قبضے پر ہم چپ سادھے بیٹھے ہیں، اور اسے سرکاری طور پر سرنڈر کرنے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ تو جب امریکہ ہماری طاقت کے بل بوتے پر پورے خطے میں اپنا کھیل کھیل کر اپنے استعماری مفادات حاصل کر سکتا ہے، تو ہم اس طاقت کی بنیاد پر اللہ کی رضا حاصل کرتے ہوئے اسے خطے کے مسلمانوں کے مفاد کے لیے کیوں استعمال نہیں کر سکتے؟ افغانستان میں ذلت آمیز شکست کے بعد یہ تصور کرنا محال ہے کہ امریکہ اب دوبارا اپنی فوجیں لے کے اس خطے پر حملہ آور ہو گا تو کیا اب وقت نہیں آ گیا کہ پاکستان جرات مندانہ قدم اٹھا کر خطے سے امریکی اثرورسوخ کا جڑ سے خاتمہ کردے؟
بلاگ: غزالی فاروق بلاگ | Ghazali Farooq Blog