ghazalifarooq
New Reader
11جون 2021ءکو بجٹ تقریر میں پاکستان کے حکمرانوں نے کچھ مخصوص شعبوں پر ٹیکس میں کمی اور حکومتی ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کو بہت نمایاں کر کے بیان کیا۔اور پھر ہر میسرپلیٹ فارم پراس بجٹ کی تعریفوں کے پل باندھے گئے۔ لیکن اسی بجٹ میں پاکستان کے حکمرانوں نے مجموعی طور پر ٹیکس محصولات کو تقریباً 6 ہزار ارب روپے تک بڑھا کرٹیکس ہدف کا ایک نیا ریکارڈ قائم کردیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایک ایسا بجٹ ہے جس میں ایک جیب میں کچھ اس لیے ڈالا جارہا ہے تاکہ دوسری جیب سے اس سے کہیں زیادہ نکال لیا جائے۔ ہمیشہ کی طرح اس بجٹ میں بھی غریبوں اور قرضداروں سمیت ہر ایک پر ٹیکس لاگو کیا گیا ہے حالانکہ ان پر ٹیکس عائد کرنے کی بجائے انہیں زکوٰۃ میں سے مال ادا کیا جانا چاہیئے جو اُن کا حق ہے۔ اس سے بھی بدتر بات یہ ہے کہ 6 ہزار ارب روپےکی ٹیکس رقم میں سے 3 ہزار ارب روپے سود ی ادائیگیوں پر خرچ کیے جائیں گے ۔ جہاں ایک طرف سود اسلام میں ایک بہت بڑا گناہ ہے اور اللہ اور اس کے رسولﷺ کے خلاف جنگ کا اعلان کرنے کے مترادف ہے، تو دوسری جانب عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ ڈال کر وہ پیسہ واپس عوام کی فلاح و بہبود کے کاموں پر لگائے جانے کی بجائے، لوگوں کی جیبوں سے پیسہ کھینچ کھینچ کر سود خوروں کی جیبوں میں منتقل کیا جا رہا ہے ۔ تو پھر آخر کس بات پر خوشی کے شادیانے بجائے گئے ہیں؟ !
پھر اس 3 ہزار ارب روپے کی سود کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ اس بجٹ میں بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لیے مزید 3500 ارب روپے کے سودی قرضے حاصل کیے جائیں گے ۔ لہٰذا ماضی کی حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت بھی پاکستان کو سودی قرضوں کی دلدل میں مزید دھکیل رہی ہے ۔ 1971ءمیں پاکستان پر 30 ارب روپے کا قرض تھا جو 1991ءتک بڑھ کر 825 ارب روپے ہوگیا ۔ جبکہ 2011 ءتک قرضوں کا یہ بوجھ 10 ہزار ارب روپے ہوگیا ، جو صرف دس سال کے عرصے میں، تین گنا بڑھ کر، اب تقریباً 40 ہزار ارب روپے کی حد کو چھُو رہا ہے! تو پھر آخر کس بات پر خوشی کے شادیانے بجائے جارہے ہیں!
پھر اس سب کے باوجود دعوے یہ کیے جا رہے ہیں کہ عوام کی مشکلات کے دن بس اب گنے جا چکے ہیں اور خوشحالی ان کے گھروں پر دستک دینے والی ہے۔ جبکہ ہو یہ رہا ہے کہ عوام پر ٹیکس کے بوجھ کو مسلسل بڑھایا جا رہا ہے۔ چنانچہ09-2008 کے مالی سال میں ایک ہزار ارب روپے ٹیکس وصول کیاگیا اور پھر مالی سال 14-2013 تک اسے دُگنا کرتے ہوئے 2 ہزار ارب روپے سے زیادہ کردیا گیا۔ پھر 19-2018 کے مالی سال تک ٹیکس کو مزید دگنا کرتے ہوئے 4 ہزار ارب روپے کردیا گیا اور اب پاکستان کے حکمران 22-2021 کے مالی سال میں تقریباً 6 ہزار ارب روپے ٹیکس وصول کرنے کا ہدف رکھ رہے ہیں۔ ان حکمرانوں کا اگلا ہدف آئی ایم ایف کے حکم کے مطابق ٹیکس وصولی کو 25-2024 کے مالی سال تک 10 ہزار ارب روپے تک لے کر جانا ہے۔ اگر ٹیکسوں میں یہ اضافہ اس لیے کیا جارہا ہوتا،کہ رسول اللہﷺ کی ناموس کی حفاظت کرنی ہے ، یا مسجد الاقصیٰ اور مقبوضہ کشمیر کو آزاد کرانا ہے، تو پاکستان کے مسلمان اپنے گھروں کو خالی کردیتے اور اپنے پیٹ سے پتھر باندھ لیتے۔ لیکن ہمارے غریبوں اور قرضداروں کا پیچھا اس لیے کیا جارہا ہے کہ اُن سے حاصل ہونے والی رقم کو سود جیسے سنگین گناہ پر خرچ کیا جائے۔
پاکستان کی معیشت کا اصل مسئلہ آئی ایم ایف کی استعماری پالیسیاں ہیں جو ہمیں کبھی آزاد معیشت قائم نہیں کرنے دیں گی، وہ معیشت جو اس امت کو معاشی بدحالی سے نکالنے کے علاوہ کشمیر، فلسطین اور ناموس رسالتﷺ کے تحفظ جیسے کلیدی معاملات پر فنڈز مہیا کر سکے۔ پاکستان ایک مضبوط ملک اور مضبوط معیشت کی بنیاد رکھنے کیلئے تمام وسائل سے مالا مال ہے ۔ محض سود کی ادائیگی سے انکار ہی پاکستان کے وفاقی ترقیاتی بجٹ کو تین گنا جبکہ جنگی بجٹ کو دو گنا سے زائد بڑھا سکتا ہے، اور بجٹ خسارے، مقامی قرضوں یا پیسے چھاپنے کی ضرورت کو ختم کر سکتا ہے۔ بلواسطہ ٹیکسوں کا خاتمہ گھروں کے بجٹ کو واپس کنٹرول میں لا کر معاشی بدحالی اور غربت میں بہت بڑی کمی لا سکتا ہے۔ ایک انقلابی پیمانے پر صنعتی ترقی (انڈسٹریالائزیشن) کے بغیر کوئی نظریاتی ریاست کبھی غیر ملکی انحصار ختم نہیں کر سکتی۔ جس طرح ریاست کے درجے پر پاکستان کا ایٹمی و میزائل پروگرام ایک انقلابی انداز میں مکمل کیا گیا ،یہی سوچ اور طرز عمل تمام ہیوی انڈسٹریز کی تعمیر کی بنیاد ہونی چاہیئے جسے ایک ریاست براہ راست کنٹرول کرے ۔
جہاں تک اِس بات کا تعلق ہے کہ اسلام نے جو فرائض ریاست پر عائد کیے ہیں ان کے لیے درکار وسائل کو بڑی مقدار میں کیسے جمع کیاجائے گا ، جیسا کہ غریبوں کو غربت سے اور قرضدار کو قرض سےنجات دلانا یا مقبوضہ علاقوں کو آزاد کرانے کے لیے افواج کو تیار کرنا وغیرہ؟ تو اسلام میں یہ کام غریبوں اور قرضداروں پر بوجھ ڈالے بغیر کیا جاتا ہے۔ ایک اسلامی ریاست مالی لحاظ سے مستحکم لوگوں سے بڑی تعداد میں محصول جمع کرتی ہے ، جیسا کہ زرعی زمین کے مالکان سے خراج اور تجارتی مال کے مالکان سے زکوٰۃ جمع کرنا۔ پھر وہ ریاست توانائی اور معدنی وسائل کی نجکاری نہیں کرتی کیونکہ اسلام میں انہیں عوامی ملکیت قرار دیا گیا ہے ، جن سے حاصل ہونے والا بھاری منافع پرائیویٹ کمپنیوں کے خزانے نہیں بھرتا بلکہ ریاست اسے لوگوں کی ضروریات پر خرچ کرتی ہے۔ مزید یہ کہ ایک اسلامی ریاست روپے کی قدر میں مسلسل کمی اور ڈالر کی بالادستی کا خاتمہ کرتی ہے ، جس نے ہمیں مہنگائی کے سیلاب میں ڈبو دیا ہے۔ اس کے لیے وہ کرنسی کو سونے اور چاندی پر مبنی کرتی ہے اور اسی کی بنیاد پر کرنسی جاری کرتی ہے ، جس کے نتیجے میں اشیاء کی قیمتوں میں استحکام آتا ہے جیسا کہ اس سے پہلے صدیوں تک خلافت کے کے ادوار میں قیمتوں میں استحکام موجود رہا۔اسلام کی زرعی پالیسیاں، فوڈ سیکیوریٹی کے علاوہ پاکستان جیسے زرعی ملک کی معاشی کایا پلٹ سکتیں ہیں۔ اسلام کے دولت کی تقسیم سے متعلق نازل کردہ احکامات دولت کے چند ہاتھوں میں ارتکاز کا خاتمہ کر کے سب کو معاشی ترقی کے ثمرات کا متناسب فائدہ پہنچنے کا ذریعہ ہیں۔ اگر اس سب کے بعد بھی محاصل کم پڑجائیں تو ریاست معاشرے کے امیر افراد سے ہنگامی ٹیکس وصول کرسکتی ہے ۔
لہٰذا موجودہ بجٹ میں بھی گزشتہ حکومتوں کے بجٹ کی طرح کچھ نیا نہیں۔ آئی ایم ایف کی پالیسی کے تحت چل کر کبھی بھی ہم ایک آزاد معیشت کی تعمیر نہیں کر سکتے۔ صرف اسلام کے معاشی نظام کے ذریعے ہی پاکستان کو صف اول کی معیشت پر کھڑا کیا جا سکتا ہے، وہ معیشت جہاں "روٹی یا بندوق "کی بجائے" روٹی اور بندوق "کا انتظام ہو گا، تاکہ کشمیر و فلسطین کی آزادی یا ناموس رسالت ﷺ کا تحفظ کسی حکمران کی معاشی بلیک میلنگ کے سامنے یرغمال نہ ہو۔
بلاگ: غزالی فاروق بلاگ | Ghazali Farooq Blog
پھر اس 3 ہزار ارب روپے کی سود کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ اس بجٹ میں بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لیے مزید 3500 ارب روپے کے سودی قرضے حاصل کیے جائیں گے ۔ لہٰذا ماضی کی حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت بھی پاکستان کو سودی قرضوں کی دلدل میں مزید دھکیل رہی ہے ۔ 1971ءمیں پاکستان پر 30 ارب روپے کا قرض تھا جو 1991ءتک بڑھ کر 825 ارب روپے ہوگیا ۔ جبکہ 2011 ءتک قرضوں کا یہ بوجھ 10 ہزار ارب روپے ہوگیا ، جو صرف دس سال کے عرصے میں، تین گنا بڑھ کر، اب تقریباً 40 ہزار ارب روپے کی حد کو چھُو رہا ہے! تو پھر آخر کس بات پر خوشی کے شادیانے بجائے جارہے ہیں!
پھر اس سب کے باوجود دعوے یہ کیے جا رہے ہیں کہ عوام کی مشکلات کے دن بس اب گنے جا چکے ہیں اور خوشحالی ان کے گھروں پر دستک دینے والی ہے۔ جبکہ ہو یہ رہا ہے کہ عوام پر ٹیکس کے بوجھ کو مسلسل بڑھایا جا رہا ہے۔ چنانچہ09-2008 کے مالی سال میں ایک ہزار ارب روپے ٹیکس وصول کیاگیا اور پھر مالی سال 14-2013 تک اسے دُگنا کرتے ہوئے 2 ہزار ارب روپے سے زیادہ کردیا گیا۔ پھر 19-2018 کے مالی سال تک ٹیکس کو مزید دگنا کرتے ہوئے 4 ہزار ارب روپے کردیا گیا اور اب پاکستان کے حکمران 22-2021 کے مالی سال میں تقریباً 6 ہزار ارب روپے ٹیکس وصول کرنے کا ہدف رکھ رہے ہیں۔ ان حکمرانوں کا اگلا ہدف آئی ایم ایف کے حکم کے مطابق ٹیکس وصولی کو 25-2024 کے مالی سال تک 10 ہزار ارب روپے تک لے کر جانا ہے۔ اگر ٹیکسوں میں یہ اضافہ اس لیے کیا جارہا ہوتا،کہ رسول اللہﷺ کی ناموس کی حفاظت کرنی ہے ، یا مسجد الاقصیٰ اور مقبوضہ کشمیر کو آزاد کرانا ہے، تو پاکستان کے مسلمان اپنے گھروں کو خالی کردیتے اور اپنے پیٹ سے پتھر باندھ لیتے۔ لیکن ہمارے غریبوں اور قرضداروں کا پیچھا اس لیے کیا جارہا ہے کہ اُن سے حاصل ہونے والی رقم کو سود جیسے سنگین گناہ پر خرچ کیا جائے۔
پاکستان کی معیشت کا اصل مسئلہ آئی ایم ایف کی استعماری پالیسیاں ہیں جو ہمیں کبھی آزاد معیشت قائم نہیں کرنے دیں گی، وہ معیشت جو اس امت کو معاشی بدحالی سے نکالنے کے علاوہ کشمیر، فلسطین اور ناموس رسالتﷺ کے تحفظ جیسے کلیدی معاملات پر فنڈز مہیا کر سکے۔ پاکستان ایک مضبوط ملک اور مضبوط معیشت کی بنیاد رکھنے کیلئے تمام وسائل سے مالا مال ہے ۔ محض سود کی ادائیگی سے انکار ہی پاکستان کے وفاقی ترقیاتی بجٹ کو تین گنا جبکہ جنگی بجٹ کو دو گنا سے زائد بڑھا سکتا ہے، اور بجٹ خسارے، مقامی قرضوں یا پیسے چھاپنے کی ضرورت کو ختم کر سکتا ہے۔ بلواسطہ ٹیکسوں کا خاتمہ گھروں کے بجٹ کو واپس کنٹرول میں لا کر معاشی بدحالی اور غربت میں بہت بڑی کمی لا سکتا ہے۔ ایک انقلابی پیمانے پر صنعتی ترقی (انڈسٹریالائزیشن) کے بغیر کوئی نظریاتی ریاست کبھی غیر ملکی انحصار ختم نہیں کر سکتی۔ جس طرح ریاست کے درجے پر پاکستان کا ایٹمی و میزائل پروگرام ایک انقلابی انداز میں مکمل کیا گیا ،یہی سوچ اور طرز عمل تمام ہیوی انڈسٹریز کی تعمیر کی بنیاد ہونی چاہیئے جسے ایک ریاست براہ راست کنٹرول کرے ۔
جہاں تک اِس بات کا تعلق ہے کہ اسلام نے جو فرائض ریاست پر عائد کیے ہیں ان کے لیے درکار وسائل کو بڑی مقدار میں کیسے جمع کیاجائے گا ، جیسا کہ غریبوں کو غربت سے اور قرضدار کو قرض سےنجات دلانا یا مقبوضہ علاقوں کو آزاد کرانے کے لیے افواج کو تیار کرنا وغیرہ؟ تو اسلام میں یہ کام غریبوں اور قرضداروں پر بوجھ ڈالے بغیر کیا جاتا ہے۔ ایک اسلامی ریاست مالی لحاظ سے مستحکم لوگوں سے بڑی تعداد میں محصول جمع کرتی ہے ، جیسا کہ زرعی زمین کے مالکان سے خراج اور تجارتی مال کے مالکان سے زکوٰۃ جمع کرنا۔ پھر وہ ریاست توانائی اور معدنی وسائل کی نجکاری نہیں کرتی کیونکہ اسلام میں انہیں عوامی ملکیت قرار دیا گیا ہے ، جن سے حاصل ہونے والا بھاری منافع پرائیویٹ کمپنیوں کے خزانے نہیں بھرتا بلکہ ریاست اسے لوگوں کی ضروریات پر خرچ کرتی ہے۔ مزید یہ کہ ایک اسلامی ریاست روپے کی قدر میں مسلسل کمی اور ڈالر کی بالادستی کا خاتمہ کرتی ہے ، جس نے ہمیں مہنگائی کے سیلاب میں ڈبو دیا ہے۔ اس کے لیے وہ کرنسی کو سونے اور چاندی پر مبنی کرتی ہے اور اسی کی بنیاد پر کرنسی جاری کرتی ہے ، جس کے نتیجے میں اشیاء کی قیمتوں میں استحکام آتا ہے جیسا کہ اس سے پہلے صدیوں تک خلافت کے کے ادوار میں قیمتوں میں استحکام موجود رہا۔اسلام کی زرعی پالیسیاں، فوڈ سیکیوریٹی کے علاوہ پاکستان جیسے زرعی ملک کی معاشی کایا پلٹ سکتیں ہیں۔ اسلام کے دولت کی تقسیم سے متعلق نازل کردہ احکامات دولت کے چند ہاتھوں میں ارتکاز کا خاتمہ کر کے سب کو معاشی ترقی کے ثمرات کا متناسب فائدہ پہنچنے کا ذریعہ ہیں۔ اگر اس سب کے بعد بھی محاصل کم پڑجائیں تو ریاست معاشرے کے امیر افراد سے ہنگامی ٹیکس وصول کرسکتی ہے ۔
لہٰذا موجودہ بجٹ میں بھی گزشتہ حکومتوں کے بجٹ کی طرح کچھ نیا نہیں۔ آئی ایم ایف کی پالیسی کے تحت چل کر کبھی بھی ہم ایک آزاد معیشت کی تعمیر نہیں کر سکتے۔ صرف اسلام کے معاشی نظام کے ذریعے ہی پاکستان کو صف اول کی معیشت پر کھڑا کیا جا سکتا ہے، وہ معیشت جہاں "روٹی یا بندوق "کی بجائے" روٹی اور بندوق "کا انتظام ہو گا، تاکہ کشمیر و فلسطین کی آزادی یا ناموس رسالت ﷺ کا تحفظ کسی حکمران کی معاشی بلیک میلنگ کے سامنے یرغمال نہ ہو۔
بلاگ: غزالی فاروق بلاگ | Ghazali Farooq Blog