• Dear readers, our reading section is temporarily offline as we’re redeveloping it from scratch to provide you with an even better reading experience. Stay tuned!

Urdu Column An Islamic state consisting of Pakistan, Afghanistan & Central Asia by Ghazali Farooq

ghazalifarooq

New Reader
Map2.png

جب افغان مجاہدین کابل میں داخل ہوئے تو مسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی جبکہ امریکہ جلدی میں اپنے سفارتی عملے کو کابل سے نکال کر اپنا سفارت خانہ خالی کررہا تھا اور افغانستان کا کٹھ پتلی حکمران اشرف غنی ملک سے فرار ہو چکا تھا۔ چند ہزار ہلکے ہتھیاروں سے مسلح مجاہدین نے تیسری استعماری طاقت ،امریکہ کے غرور کو اپنے قدموں تلے روند ڈالا،بالکل ویسے ہی جیسے اس علاقے کے مجاہدین نے برطانوی سلطنت اور پھر سوویت روس کے غرور کو خاک میں ملایا تھا۔

وقت کی سپر پاور امریکہ کے خلاف یہ فتح دراصل افغانستان اور پاکستان، دونوں میں بسنے والے مسلمانوں کی فتح ہے جو افغانستان پر امریکہ کے قبضے کے سخت خلاف تھے اور مجاہدین کی ہر ممکن مددوحمایت کر رہے تھے۔ لیکن اس وقت پاکستان کے مسلمانوں کو افغانستان کے مسلمانوں سے جو چیز الگ کرتی ہے وہ "ڈیورینڈ لائن" (Durand Line)ہے ۔ یہ وہ سرحد ہے جس کی بنیاد 1893ء میں برصغیر میں قائم برطانوی راج کے سیکرٹری خارجہ مورٹمر ڈیورنڈ (Mortimer Durand)نے رکھی تھی۔ پھر اس سرحد کو 1919 ء میں برطانیہ اور افغانستان کے درمیان لڑی جانے والی تیسری جنگ کے نتیجے میں مستقل حیثیت دے دی گئی۔اس سرحد کا قیام برطانوی راج کی جانب سے اس بات کا اعتراف تھا کہ وہ افغانستان کے علاقے کے مسلمانوں کے خلاف تین جنگیں لڑنے کے باوجود اس سرحد پار کے علاقوں کو فتح نہیں کر سکا تھا ۔ لہٰذا جہاں تک وہ فتح کر سکا وہ علاقے ڈیورنڈ لائن کے ایک طرف قائم برطانوی راج کے زیر اثر آ گئے ،جبکہ باقی علاقے اس سرحد کی دوسری جانب رہے،اس سے قطع نظر کہ اس سرحد کے دونوں اطراف پر پشتون مسلمان ہی آباد تھے، جن کی آپس میں رشتے داریاں تھیں۔ لہٰذا یہ اپنی نوعیت کی ایک نہایت غیر فطری اور مصنوعی سرحد تھی۔ برصغیر کی تقسیم کے موقع پر جب برطانیہ یہاں سے نکلا تو انگریز کی کھینچی ہوئی یہ لکیر اسی طرح قائم رہی اور آج کی تاریخ تک یہ اسی طرح قائم چلی آ رہی ہے۔

آج جبکہ امریکہ ایک ذلت آمیز شکست سے دوچار ہو کر افغانستان سے بھاگ اٹھا ہے اور افغانستان مکمل طور پر مسلمانوں کی اتھارٹی تلے آ گیا ہے تو اس بات کا آخر کیا جواز باقی رہتا ہے کہ مسلمانوں کے دو آزاد علاقے ایک دوسرے سے جُڑے ہونے کے باوجود استعمار کی تراشی ہوئی غیر فطری اور مصنوعی سرحدوں کو اختیار کیے رکھیں؟اسی طرح جب وسطی ایشیاء کے مسلم علاقوں کو 1991ء کے بعد سوویٹ یونین سے آزادی حاصل ہو گئی اور آج وہ مکمل طور پر مسلمانوں کی اتھارٹی کے نیچے ہیں تو آخر ایسا کیوں نہ ہو کہ پاکستان، افغانستان اور وسطی ایشیاء کے علاقوں پر مشتمل ایک بڑی اسلامی ریاست کو قائم کیا جائے ، جو نہ صرف خطے میں بلکہ پوری دنیا میں ایک عالمگیر طاقت بن کر ابھرے ؟

اگر ہم ان علاقوں میں موجود قدرتی وسائل کا جائزہ لیں تو جہاں ایک طرف ایٹمی صلاحیت سے لیس پاکستان اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے فضل و کرم سے زراعت اور معدنیات پر مشتمل ان گنت وسائل سے مالا مال ہے ، جن کو آج تک پاکستان کی کسی سیاسی یا فوجی حکومت نے صحیح معنوں میں خطے کے مسلمانوں کو مضبوط بنانے کے لیے استعمال نہیں کیا، تو دوسری جانب افغانستان کی سرزمین بھی بے شمار معدنیات اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔14 جون 2010 کو نیو یارک ٹائمز کی جانب سے شائع کردہ ایک رپورٹ کے مطابق امریکی پینٹاگون کے سرکاری اہلکاروں اور جیولوجی کے ماہرین پر مشتمل ایک گروہ نے یہ حساب لگایا تھا کہ افغانستان جس سرزمین پر موجود ہے ، وہ ایک ٹرلین ڈالر کی مالیت کے معدنیاتی ذخائر کی حامل ہے ۔ ان معدنیات میں لوہا، تانبا، سونا ، کوبالٹ، نیوبیم اور نایاب زمینی اجزاء (rare earth elements) بھاری مقدار میں موجود ہیں۔ لیتھیم کی مقدار اس قدر پائی گئی کہ افغانستان کو " لیتھیم کا سعودی عرب" بھی کہا گیا۔

ان سب معدنیات کی موجودہ اور آنے والے دور میں اہمیت کا اندازہ ان کے استعمالات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے ۔ سونے اور لوہے کے بارے میں تو کیا کہنا، تانبے کا استعمال بجلی کی تاروں میں اور الیکٹرانکس میں ہوتا ہے۔ کوبالٹ اور لیتھیم کا استعمال ریچارج ایبل بیٹریوں اور الیکٹرک گاڑیوں میں ہوتا ہے جبکہ نیوبیم ایک خاص قسم کے سٹین لیس سٹیل میں استعمال ہوتا ہے۔ نایاب زمینی اجزاء (rare earth elements) آپٹیکل فائر کیبل میں استعمال ہوتے ہیں ،جو جدید مواصلاتی نظام کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ تمام معدنیات وہ ہیں جن کی پوری دنیا میں اس وقت بھی اشد ضرورت ہے اور مستقبل قریب میں ان کی ضرورت میں ہوشربا اضافہ ہونے کے واضح قرائن موجود ہیں۔ افغانستان میں یہ سروے پہلے سوویت یونین نے 80 کی دہائی میں شروع کیے جب افغانستان پر اس کا قبضہ تھا۔ امریکہ کو روس کے چھوڑے ہوئے نتائج 2004ء میں کابل کی ایک لائبریری سے دریافت ہوئے۔ امریکہ نے ان تحقیقات کو آگے بڑھاتے ہوئے جدید آلات کے ذریعے افغانستان کے 70فیصد علاقے کا سروے کیا اور پھر 2010ء میں بالآخر ان حیران کن نتائج کا انکشاف کیا۔

جہاں تک وسطی ایشیائی ممالک کی بات ہے تو 90 کی دہائی میں ترکمانستان سے لے کر پاکستان کے بحیرۂ عرب تک براستہ افغانستان، تیل کی ایک ہزار میل لمبی ایک پائپ لائن بچھائے جانے کا منصوبہ بنایا گیا تھا، جو روزانہ ایک ملین بیرل کے تیل کی ترسیل کے قابل ہو گی۔ یہ صرف ان بیش قیمت وسائل کی ایک ہلکی سی جھلک ہے جن سے یہ تمام علاقہ مالا مال ہے۔

یوں پاکستان ، افغانستان اور وسطی ایشیاء کے مسلمان مل کر ایک ایسی مضبوط ریاست کو تشکیل دے سکتے ہیں، جو وسائل کے لحاظ سے خودکفیل ہو گی اور نہ صرف بھارت کے علاقائی عزائم کا خاتمہ کر سکے گی بلکہ عالمی سطح پر ایک بڑی ریاست کی شکل میں ابھرے گی۔ جس قسم کی کھلی اور ذلت آمیز شکست سے امریکہ دو دہائیوں تک مسلسل جنگ لڑنے کے بعد طالبان کے ہاتھوں دوچار ہوا ہے، تو یہ بات واضح ہے کہ اس کی افواج کے لیے مسلمانوں کی وحدت کے سلسلے میں اٹھائے گئے اس اقدام کے خلاف دوبارہ اس خطے کا رخ کرنا بعید از قیاس ہے، جیسے برطانوی راج اور سوویت روس نے افغانستان سے اپنے فوجی انخلا ء کے بعد کبھی دوبارہ اس خطے میں واپس آکر قدم جمانے کی ہمت نہیں کی ۔

لہٰذا جس طرح امریکہ افغانستان سے نکلا ہے کہ اس کا نام و نشان تک بھی اب وہاں باقی نہیں رہا ، آج ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان بھی امریکہ کو اپنے ملک سے ہر شکل میں نکال باہر کرے۔ اس کے لیےضروری ہے کہ امریکہ کے ساتھ طے پائے گئے اے ایل او سی (ALOC)اور جی ایل او سی (GLOC) جیسے معاہدات کا خاتمہ کیا جائے جن کے تحت امریکہ کو پاکستان کی زمینی اور فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت ہے۔ کیونکہ یہ حدود خطے میں امریکہ کے علاقائی ڈھانچے کو برقرار رکھنے کے لیے شہ رگ کا کام کرتی ہیں۔ جب تک پاکستان کی جانب سے امریکہ کو یہ زمینی وفضائی گزرگاہیں میسر رہیں گی، خطے میں امریکہ کی شر انگیز موجودگی برقرار رہے گی اور نتیجتاً اس کے دوبارہ پھلنے پھولنے کی صلاحیت بھی برقرار رہے گی ۔

اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ پاکستان میں امریکی سفارت خانے اور قونصل خانے کے تحت کام کرنے والے امریکہ کے حساس ادارے سی آئی اے(CIA) کے نیٹ ورکس کا ملک بھر سے خاتمہ کیا جائے۔ یہ امریکہ کی وہ آنکھیں ہیں جو دن رات چوبیس گھنٹے پوری طرح کھلی رہتی ہیں اور جاسوسی کا کام سر انجام دیتی رہتی ہیں ۔ جب تک پاکستان اپنے ملک میں انہیں کام کرنے کی اجازت دیئے رکھے گا، ہماری خفیہ اور حساس فوجی اور انٹیلی جنس مواصلات کبھی بھی محفوظ نہیں رہ سکیں گی، اور یہ نیٹ ورکس امریکہ کو اس قابل بنائے رکھیں گے کہ وہ خطے میں اپنی موجودگی برقرار رکھے، جو کسی بھی طرح سے اس خطے کے مسلمانوں کے لیے نفع بخش نہیں ۔

پھر مزید یہ کہ پاکستان کو امریکہ کے لیے سہولت کار کا کردار ادا کرنے سے بھی رکنا ہو گا۔ اور افغان طالبان سے ایسے مذاکرات کو بھی ترک کرنا ہو گا، جن کا مقصد محض طالبان سے امریکہ کے مطالبات منوانے کی کوشش کرنا ہے ۔ مذاکرات امریکہ کا ایک پُرفریب طریقہ کار ہے جسے وہ اپنے دشمن کو نقصان پہنچانے اور اُس سے اپنے لیے مراعات حاصل کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ اور وہ طریقہ یہ اُس وقت استعمال کرتا ہے جب اسے اس بات کا یقین ہوجاتا ہے کہ اس کا حریف اس پوزیشن میں ہے کہ وہ بغیر کوئی مراعات دیے اور بغیر کوئی نقصان اٹھائے، اُس سے اپنا حق واپس لے سکتا ہے۔ اس لیے جب تک پاکستان مذاکرات میں امریکہ کی خاطر سہولت کار کا کردار ادا کرتا رہے گا، دشمن کو یہ موقع ملتا رہے گا کہ وہ گھر کے سامنے کے دروازے سے نکل کر پچھلے دروازے سے دوبارہ داخل ہوجائے۔

مسلمانوں کی طاقت کا راز کفار سے اتحاد کرنے اور اُن پر انحصار کرنے میں نہیں ہے ، چاہے وہ مشرق میں روس اور چین ہوں یا مغرب میں امریکہ و برطانیہ ۔ مسلمانوں کی طاقت کا راز آپسی بھائی چارے اور امتِ مسلمہ کی وحدت میں ہے ، اور ایک ریاست کی شکل میں ہے جہاں مسلم علاقوں کی افواج اور ان کے مادی و معاشی وسائل، سب مجموعی طور پر ایک ریاست کی شکل میں یکجا ہوں۔ اب یہ پاکستان کے حقیقی حکمرانوں پر ہے کہ آیا وہ امریکہ کے قائم کردہ قومی ریاستی ویسٹ فیلی (Westphalian) ماڈل کے ساتھ ہی چمٹے رہتے ہیں یا وہ اِس ڈیورنڈ لائن نام کی مصنوعی سرحد کو مٹا کر مسلمانوں کی قوت کو ایک ریاست تلے اکٹھا کرتے ہیں اور پھر وسطی ایشائی ممالک تک وسعت دے کر اس ریاست کو ایک عالمی طاقت کے طور پر کھڑا کرتے ہیں،جو کشمیر و فلسطین سمیت مسلمانوں کے تمام مقبوضہ علاقوں کو آزاد کرائے اور پوری دنیا میں اسلام پر مبنی عدل کی علمبردار بنے ۔

بلاگ: غزالی فاروق بلاگ | Ghazali Farooq Blog
 
Top Bottom