ghazalifarooq
New Reader
آج پاکستان کے مسلمانوں کو جس زبردست مہنگائی کا سامنا ہے اس کے حل کے حوالے سے گزشتہ دنوں میں ہم نے دیکھا کہ اسلام کے اس حکم پر بحث شروع ہو گئی ہےکہ اسلامی ریاست کی کرنسی سونے اور چاندی کی بنیاد پر جاری کی جاتی ہے، جس سے یہ مسئلہ اپنی بنیاد سے ہی ختم ہوجائے گا۔ اور یقیناً یہ ایک مثبت پیش رفت ہے۔ اسلام کے نفاذ کا مطالبہ کرنے والوں کی جانب سے سونے اور چاندی کی کرنسی کی حمایت سے اس بحث کا آغاز ہوا اور پھر اس میں سرمایہ داریت (Capitalism) اور اشتراکیت (Socialism) کی وکالت کرنے والے لوگ بھی شامل ہوگئے جو کہ فیاٹ کرنسی(fiat currency) کی حمایت کرتے ہیں اور انہوں نے یہ تأثر دینے کی کوشش کی کہ سونے اور چاندی پر مبنی کرنسی اور اس سے چلنے والی معیشت کامیاب نہیں ہو سکتی۔ اس سلسلہ میں دو بنیادی شبہات کا ذکر سننے کو ملا۔ ہم یہاں پر ان دونوں شبہات کا ازالہ کریں گے ان شاء اللہ۔
پہلا شبہہ یہ پیش کیا گیا کہ سونے اور چاندی کی قیمت معیشت کی علمبرداری نہیں کر سکتی اور یہ کہا جاتا ہے کہ ڈیجیٹل اور ڈیریویٹو(derivative) کرنسی کے علاوہ بھی دنیا کی معیشت ٹھوس حیثیت میں اتنی بڑی ہے کہ سونا اور چاندی اس کی علمبرداری نہیں کرسکتا ۔
در اصل یہاں اعتراض سونے اور چاندی کی مادی مقدار پر نہیں بلکہ قوتِ خرید پر ہے۔ مثال کے طور اگر ایک معیشت میں دس افراد ہیں جو ہر روز ایک روپے کی ایک روٹی خریدتے ہیں تو انہیں ہر روز ایک روپے کے دس نوٹ درکار ہوں گے تاکہ یہ خرید و فروخت جاری رہ سکے، اب اگر معیشت میں کرنسی کی مقدار دس روپے ہی رہے اور ایک ایک روٹی خریدنے والے افراد کی تعداد بڑھ کر ایک ہزار ہوجائے تو اب یہ دس روپے اس خرید و فروخت کو نہیں چلا سکیں گے، یوں کرنسی کی قلت معیشت میں پریشانی کا باعث بنے گی اور روز مرہ کی زندگی مفلوج ہوجائے گی کیونکہ سرمایہ دارانہ معاشیات کا ایک مسلمہ اصول ہے کہ کرنسی کی فراہمی معاشرے میں تجارتی سرگرمی کے حساب سے ہونی چاہئے ۔
مگر اس نکتہ نظر میں ہی اس کی تردید چھپی ہے ۔فرض کریں کہ ایک روٹی کی قیمت ایک روپیہ ہے ، مگر ایک روپے کی اپنی کیا قیمت ہے ؟ جی ہاں ، دراصل کرنسی کے پیمانے سے دوسری چیزوں کی قیمت لگائی جاتی ہے کیونکہ وہ خود ہی قیمت کے تعین کا ایک پیمانہ ہوتی ہے۔ کرنسی کی اپنی قیمت کی جگہ اس کی قوت خرید کا ایک تصور ہوتا ہے یا پھر دوسری کرنسیوں، کی نسبت اس کی شرح مبادلہ اور شرح مبادلہ بھی اس لئے اہمیت رکھتی ہے کیونکہ وہ یہ بتاتی ہے کہ تبدیل کی جانے والی کرنسی سے آپ اس نئی کرنسی سے کسی معاشرے سے کیا کچھ خرید سکتے ہیں یعنی یہاں بھی اصل چیز قوت ِخرید ہی ہے ۔
معاشرے میں اشیاء کی قیمت ان کی طلب و رسد(demand and supply)کے تحت ہوتی ہے ، کرنسی کا کام صرف پیمائش کا ہے ۔ روٹی بنانے والا اپنی روٹی کی قیمت اس لحاظ سے مقرر کرتا ہے کہ وہ اس معاشرے سے ان روٹیوں کے بدلے کیا لینا چاہ رہا ہے ، اس روٹی کا روپے کے نوٹ سے یا ایک کے ہندسے سے بذات خود کوئی رشتہ نہیں۔ ضروری نہیں کہ روٹی ہمیشہ ایک روپے ہی کی ہو، وہ ایک پیسے کی بھی ہوسکتی ہے اور ایک ہزار روپے کی بھی جو صرف اس بات پر منحصر ہے کہ معاشرے میں اس وقت ایک پیسے یا ایک ہزار روپے کی قوت خرید اتنی ہی ہے جتنا کہ روٹی والا معاشرے کو روٹی فراہم کرنے کی اجرت چاہتا ہے۔
اوپر مثال میں واضح کیا گیا ہے کہ اگر معاشرے میں دس روپے ہوں اور دس لوگ ہوں تو کام چل سکتا ہے اور اگر ہزار لوگ بھی آجائیں تو کوئی مشکل نہیں کیونکہ اشیاء کی قیمت کم کر کے یہ خرید و فروخت کی جاسکتی ہے۔ اصل مشکل یہ ہے کہ دس روپے ایک ایک روپے کی شکل میں ہیں اور اس معاشرے میں ایک روپیہ پھر بہت بڑی قیمت کا نوٹ بن جائے گا جو روز مرہ خرید و فروخت کے لئے قابل استعمال نہیں رہے گا۔ لیکن اگر انہی دس روپوں کو ایک ایک پیسے کے چھوٹے چھوٹے نوٹوں میں تبدیل کر لیا جائے تو ایسے ہزار نوٹ بن سکتے ہیں اور پھر وہی دس روپے ان ہزار لوگوں پر مشتمل معیشت میں بھی فعال کرنسی کا کام دے سکیں گے۔
دنیا میں موجود سونا اور چاندی یا پاکستان میں موجود سونے اور چاندی کی مقدار کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں کہ دنیا کی یا پاکستان کی معیشت کتنی بڑی ہے ۔ سونے اور چاندی کی قیمت ہر حجم کی معیشت کی علمبرداری کرسکتی ہے ، رہی بات سونے اور چاندی کو اتنے چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کرنے کی کہ روز مرہ زندگی چل سکے، اس کے بہت سے طریقے ہیں ۔ مثلاً نسبتاً بڑے حجم کی خرید و فروخت کے لیے سونے کے ایک ، نصف اور چوتھائی دینار جبکہ روز مرہ کی خرید و فروخت کے لئے چاندی کے ایک،نصف اور چوتھائی درہم کا استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ اس کے علاوہ دینار اور درہم کے ایک سوویں حصے پر مبنی کرنسی بھی جاری کی جا سکتی ہے، جیسے ایک روپے میں سو پیسے ہوتے ہیں ۔
سو یہ بات طے ہے کہ موجودہ سونے اور چاندی کے ذخائر سے معیشت کی علمبرداری کی جاسکتی ہے یعنی پاکستان میں قائم ہونے والی اسلامی ریاست اس سرزمین میں موجود سونے اور چاندی کے ذخائر سےملک کی معیشت باآسانی چلاسکتی ہے، فرق صرف اس قسم کا ہوگا کہ کسی حد تک قلت زر (Deflation ) ہوجائےگی مثلاً 1 روپے کے برابر کرنسی کی طاقت ابھی کے 10 روپے یا اس سے بھی زیادہ روپے کے نوٹ کے برابر ہو جائے گی۔ یعنی آج اگر ایک روٹی 10 روپے کی ہے تو سونے اور چاندی کے نظام میں اس کی قیمت 1 روپے ہوجائے گی اور اسی طرح اجرتوں کا تعین بھی ہوجائے گا یعنی آج اگر ایک شخص کے کسی کام کی اجرت 1 لاکھ روپے ہے تو سونے اور چاندی کے نظام میں اس کی اجرت 10 ہزار روپے کے برابر ہوجائے گی۔کیونکہ سونے اور چاندی پر مبنی ہونے کے باعث کرنسی کی قوت خرید بڑھ چکی ہو گی۔
ابھی تک کی بحث سے یہ بات تو طے ہے کہ اشیاء کا قیمتوں کے ساتھ کوئی اندرونی تعلق نہیں بلکہ محض رسمی تعلق ہوتا ہے جسے تبدیل کیا جا سکتا ہے اور مزید یہ کہ سونا اور چاندی اپنی اصلی فطری قدر پر لوٹ کر اشیاء کے ساتھ اس نئی قیمت کا تعلق قائم کرسکتا ہے ۔ اس سلسلہ میں بنیادی طور پر دوسرا شبہہ یہ پیش کیا جاتا ہے کہ اول تو سونے اور چاندی کو کرنسی بنانے سے یکدم بہت ڈیفلیشن ہوجائے گی یعنی اشیاء کی قیمتیں سونے اور چاندی کی نسبت گرجائیں گی اور دوم یہ کہ ڈیفلیشن مستقل بنیادوں پر معیشت کا حصہ بن جائے گی جو کہ ایک بہت بری چیز ہے۔
اس کے جواب میں سب سے پہلے تو اس بات میں فرق کیجئے کہ منزل اور اس تک پہنچنے کا راستہ دو مختلف چیزیں ہیں ۔ مدینہ میں اسلامی ریاست کے قیام کے لئے مکہ کے تلخ مرحلے سے گزرنا پڑا، مگر اس مقصد کو اس لئے ترک نہیں کردیاگیا کہ اس کا حصول مشکل تھا بلکہ مقصد کی طرف سفر جاری رہا کیونکہ مقصد بذات خود حکم شرعی کے اعتبار سے فرض تھا ۔
سونے اور چاندی کی کرنسی کے فوائد مجموعی طور پر اس وقت حاصل ہونگے جب معاشرے میں یہ کرنسی رائج ہوگی ۔ اس سے قبل کاغذی کرنسی کو حذف کرنے میں جو مشکلات آئیں گی ، وہ مقصد کی اہمیت کو ختم نہیں کرسکتیں۔ ان میں سے ایک مشکل یہ ہے کہ کاغذی کرنسی اپنے قدم جماچکی ہے اور اس میں بے جا اور مصنوعی پھیلاؤ کی وجہ سے معاشرہ افراط زر اور مہنگائی میں جکڑاگیا ہے۔ جب عوام سونے اور چاندی کو اختیار کرے گی تو سونے اور چاندی کی قیمت اپنی اصل کی طرف واپس جانے کی وجہ سے مہنگائی کم ہوگی اور قیمتیں گریں گی ، یہ تو کوئی اتنی بری چیز نہیں کیونکہ اس سے عوام کو فائدہ پہنچے گا ۔
اقتصادی لحاظ سے ایک اور پہلو زیادہ اہم ہے کہ سونے اور چاندی کو کرنسی کی بنیاد رکھنے سے معاشرہ مستقل بنیادوں پر ایک ہلکی سی ڈیفلیشن کا شکار رہے گا کیونکہ کرنسی کی مقدار اتنی ہی رہے گی یا بہت آہستہ بڑھے گی جبکہ اشیاء اور خدمات تیزی سے بڑھتی چلی جائیں گی۔ لیکن حقیقت میں یہ بات ہی باطل اور فاسد ہے اور سرمایہ دارانہ سوچ کا مظہر ہے کہ مسلسل ایسی ہلکی سی ڈیفلیشن بھی معیشت کے لئے مضر ہے۔
فرض کریں کہ اگر میرے پاس ایک درہم ہے اور میں اس سے ایک درجن انڈے خرید سکتا ہوں تو جب انڈوں کی قیمت گرے گی اور میں ایک درہم سے دو درجن انڈے خرید سکوں گا تو یہ صورت فائدہ مند ہوگی۔تو پھر سرمایہ دارانہ معاشی ماہرین کیوں اس کے اتنے خلاف ہیں ؟َ اس کی وجہ ان کا یہ گمان ہے کہ ڈیفلیشن سے معیشت تباہ ہوجاتی ہے اور کاروبار دیوالیہ ہوجاتے ہیں مگر اہم بات یہ ہے کہ اس کا اطلاق صرف ان کے سودی نظام میں ہوتا ہے ، ڈیفلیشن کا یہ خوف دینار اور درہم پر اعتراض کرنے والوں کا اہم نکتہ ہے اور اس نکتے کو سمجھنے سے یہ مسئلہ حل ہوجائے گا۔
فرض کریں کہ میں نے بنک سے لاکھ روپے قرض لے کر فرنیچر کے کاروبار میں لگایا ، بنک نے شرط رکھی کہ میں بنک کو 3000 روپے ماہانہ لوٹاؤں گا جس میں سے 2000 روپے قرض کی اصل رقم ہوگی اور 1000 روپے سود ہوگا ۔ اگر میری آمدن بھی 3000 روپے ہی ہے اور میں ہر روز ایک کرسی 100 روپے کی بیچ دیتا ہوں تو میرا کاروبار آسانی سے چلتا رہے گا کیونکہ بنک کو اصل رقم اور منافع (سود) مل رہا ہے۔ اب اگر معاشرے میں ڈیفلیشن کا دباؤ پڑے اور میں یہ دیکھوں کہ لوگ کرسی نہیں خرید رہے تو مجھے قیمت کم کرکے 50 روپے کی کرنی پڑے گی ، یوں کہنے کو تو مجھے نقصان ہوا یعنی میری آمدنی صرف 1500 روپے رہ گئی مگر کیونکہ یہ ڈیفلیشن پورے معاشرے میں لاگو ہوتی ہے ، سو باقی چیزیں بھی سستی ہوگئیں اور میں اب بھی اتنی ہی اچھی زندگی گزارسکتا ہوں ، میرا کاروبار کاغذوں میں تو کم ہوگیا مگر حقیقت میں شاید میں اور زیادہ خوشحال ہوجاؤں کیونکہ میں اس کم آمدن سے بھی زیادہ خرید سکوں گا ، مگر بنک کے قرض اور سود لوٹانے کے لحاظ سے یہ صورت مضر ہے کیونکہ اگر میری آمدن 1500 روپے ہوگئی تو میں اپنے بنک کو سود تو کیا قرض کی اصل رقم ادا کرنے سے بھی قاصر ہوجاؤں گا اور بنک میرا کاروبار دیوالیہ کردے گا ، یہی وجہ ہے کہ سودی نظام خصوصی طور پر ڈیفلیشن کو اتنا مضر گردانتا ہے کیونکہ اس کا تمام نکتہ نظر اپنے قرض اور اس کے سود کی واپسی پر ہوتا ہے۔
بنک کے قرض کے برعکس جب اس معاملہ کو کاروباری سطح پر دیکھیں ہمیں کوئی مسٔلہ نظر نہیں آتا۔ اگر میں لکڑی 60 روپے کی خریدتا ہوں اور کرسی بنا کر کسی کو 100 روپے کی بیچتا ہوں تو میرا کاروبار چل سکتا ہے مگر جب کرسی کی قیمت گر کر 50 روپے ہوجائے گی تو پھر مجھے نقصان ہی نقصان ہو جائے ،لیکن بات یہ ہے کہ جب کرسی 50 روپے کی ہوئی تو لکڑی بھی تو 30 روپے کی ہوجائے گی ۔ لہٰذا منافع برقرار رہے گا۔
صرف اسلام کا نظام ہی امریکی تسلط کو ختم کر سکتا ہے، جو کمیونسٹ ریاست اپنے خاتمے سے پہلے کرنے میں ناکام رہی۔ سونے اور چاندی کے نظام کی طرف واپسی استحکام کو بحال کرے گا، اور ایک ریاست کی دیگر ریاستوں پر مالیاتی بالادستی کا خاتمہ کرےگا۔ بین الاقوامی اور ملکی تجارت میں سونے اور چاندی کو اپنانے سے اسلامی ریاست ڈالر کے تباہ کن انحصار کو ختم کر دے گی۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،اَلَا يَعۡلَمُ مَنۡ خَلَقَؕ وَهُوَ اللَّطِيۡفُ الۡخَبِيۡرُ " بھلا جس نے پیدا کیا وہ نہیں جانے گا؟ وہ تو پوشیدہ باتوں کا جاننے والا اور (ہر چیز سے) آگاہ ہے۔"(الملک، 67:14)
بلاگ: غزالی فاروق بلاگ | Ghazali Farooq Blog
پہلا شبہہ یہ پیش کیا گیا کہ سونے اور چاندی کی قیمت معیشت کی علمبرداری نہیں کر سکتی اور یہ کہا جاتا ہے کہ ڈیجیٹل اور ڈیریویٹو(derivative) کرنسی کے علاوہ بھی دنیا کی معیشت ٹھوس حیثیت میں اتنی بڑی ہے کہ سونا اور چاندی اس کی علمبرداری نہیں کرسکتا ۔
در اصل یہاں اعتراض سونے اور چاندی کی مادی مقدار پر نہیں بلکہ قوتِ خرید پر ہے۔ مثال کے طور اگر ایک معیشت میں دس افراد ہیں جو ہر روز ایک روپے کی ایک روٹی خریدتے ہیں تو انہیں ہر روز ایک روپے کے دس نوٹ درکار ہوں گے تاکہ یہ خرید و فروخت جاری رہ سکے، اب اگر معیشت میں کرنسی کی مقدار دس روپے ہی رہے اور ایک ایک روٹی خریدنے والے افراد کی تعداد بڑھ کر ایک ہزار ہوجائے تو اب یہ دس روپے اس خرید و فروخت کو نہیں چلا سکیں گے، یوں کرنسی کی قلت معیشت میں پریشانی کا باعث بنے گی اور روز مرہ کی زندگی مفلوج ہوجائے گی کیونکہ سرمایہ دارانہ معاشیات کا ایک مسلمہ اصول ہے کہ کرنسی کی فراہمی معاشرے میں تجارتی سرگرمی کے حساب سے ہونی چاہئے ۔
مگر اس نکتہ نظر میں ہی اس کی تردید چھپی ہے ۔فرض کریں کہ ایک روٹی کی قیمت ایک روپیہ ہے ، مگر ایک روپے کی اپنی کیا قیمت ہے ؟ جی ہاں ، دراصل کرنسی کے پیمانے سے دوسری چیزوں کی قیمت لگائی جاتی ہے کیونکہ وہ خود ہی قیمت کے تعین کا ایک پیمانہ ہوتی ہے۔ کرنسی کی اپنی قیمت کی جگہ اس کی قوت خرید کا ایک تصور ہوتا ہے یا پھر دوسری کرنسیوں، کی نسبت اس کی شرح مبادلہ اور شرح مبادلہ بھی اس لئے اہمیت رکھتی ہے کیونکہ وہ یہ بتاتی ہے کہ تبدیل کی جانے والی کرنسی سے آپ اس نئی کرنسی سے کسی معاشرے سے کیا کچھ خرید سکتے ہیں یعنی یہاں بھی اصل چیز قوت ِخرید ہی ہے ۔
معاشرے میں اشیاء کی قیمت ان کی طلب و رسد(demand and supply)کے تحت ہوتی ہے ، کرنسی کا کام صرف پیمائش کا ہے ۔ روٹی بنانے والا اپنی روٹی کی قیمت اس لحاظ سے مقرر کرتا ہے کہ وہ اس معاشرے سے ان روٹیوں کے بدلے کیا لینا چاہ رہا ہے ، اس روٹی کا روپے کے نوٹ سے یا ایک کے ہندسے سے بذات خود کوئی رشتہ نہیں۔ ضروری نہیں کہ روٹی ہمیشہ ایک روپے ہی کی ہو، وہ ایک پیسے کی بھی ہوسکتی ہے اور ایک ہزار روپے کی بھی جو صرف اس بات پر منحصر ہے کہ معاشرے میں اس وقت ایک پیسے یا ایک ہزار روپے کی قوت خرید اتنی ہی ہے جتنا کہ روٹی والا معاشرے کو روٹی فراہم کرنے کی اجرت چاہتا ہے۔
اوپر مثال میں واضح کیا گیا ہے کہ اگر معاشرے میں دس روپے ہوں اور دس لوگ ہوں تو کام چل سکتا ہے اور اگر ہزار لوگ بھی آجائیں تو کوئی مشکل نہیں کیونکہ اشیاء کی قیمت کم کر کے یہ خرید و فروخت کی جاسکتی ہے۔ اصل مشکل یہ ہے کہ دس روپے ایک ایک روپے کی شکل میں ہیں اور اس معاشرے میں ایک روپیہ پھر بہت بڑی قیمت کا نوٹ بن جائے گا جو روز مرہ خرید و فروخت کے لئے قابل استعمال نہیں رہے گا۔ لیکن اگر انہی دس روپوں کو ایک ایک پیسے کے چھوٹے چھوٹے نوٹوں میں تبدیل کر لیا جائے تو ایسے ہزار نوٹ بن سکتے ہیں اور پھر وہی دس روپے ان ہزار لوگوں پر مشتمل معیشت میں بھی فعال کرنسی کا کام دے سکیں گے۔
دنیا میں موجود سونا اور چاندی یا پاکستان میں موجود سونے اور چاندی کی مقدار کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں کہ دنیا کی یا پاکستان کی معیشت کتنی بڑی ہے ۔ سونے اور چاندی کی قیمت ہر حجم کی معیشت کی علمبرداری کرسکتی ہے ، رہی بات سونے اور چاندی کو اتنے چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کرنے کی کہ روز مرہ زندگی چل سکے، اس کے بہت سے طریقے ہیں ۔ مثلاً نسبتاً بڑے حجم کی خرید و فروخت کے لیے سونے کے ایک ، نصف اور چوتھائی دینار جبکہ روز مرہ کی خرید و فروخت کے لئے چاندی کے ایک،نصف اور چوتھائی درہم کا استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ اس کے علاوہ دینار اور درہم کے ایک سوویں حصے پر مبنی کرنسی بھی جاری کی جا سکتی ہے، جیسے ایک روپے میں سو پیسے ہوتے ہیں ۔
سو یہ بات طے ہے کہ موجودہ سونے اور چاندی کے ذخائر سے معیشت کی علمبرداری کی جاسکتی ہے یعنی پاکستان میں قائم ہونے والی اسلامی ریاست اس سرزمین میں موجود سونے اور چاندی کے ذخائر سےملک کی معیشت باآسانی چلاسکتی ہے، فرق صرف اس قسم کا ہوگا کہ کسی حد تک قلت زر (Deflation ) ہوجائےگی مثلاً 1 روپے کے برابر کرنسی کی طاقت ابھی کے 10 روپے یا اس سے بھی زیادہ روپے کے نوٹ کے برابر ہو جائے گی۔ یعنی آج اگر ایک روٹی 10 روپے کی ہے تو سونے اور چاندی کے نظام میں اس کی قیمت 1 روپے ہوجائے گی اور اسی طرح اجرتوں کا تعین بھی ہوجائے گا یعنی آج اگر ایک شخص کے کسی کام کی اجرت 1 لاکھ روپے ہے تو سونے اور چاندی کے نظام میں اس کی اجرت 10 ہزار روپے کے برابر ہوجائے گی۔کیونکہ سونے اور چاندی پر مبنی ہونے کے باعث کرنسی کی قوت خرید بڑھ چکی ہو گی۔
ابھی تک کی بحث سے یہ بات تو طے ہے کہ اشیاء کا قیمتوں کے ساتھ کوئی اندرونی تعلق نہیں بلکہ محض رسمی تعلق ہوتا ہے جسے تبدیل کیا جا سکتا ہے اور مزید یہ کہ سونا اور چاندی اپنی اصلی فطری قدر پر لوٹ کر اشیاء کے ساتھ اس نئی قیمت کا تعلق قائم کرسکتا ہے ۔ اس سلسلہ میں بنیادی طور پر دوسرا شبہہ یہ پیش کیا جاتا ہے کہ اول تو سونے اور چاندی کو کرنسی بنانے سے یکدم بہت ڈیفلیشن ہوجائے گی یعنی اشیاء کی قیمتیں سونے اور چاندی کی نسبت گرجائیں گی اور دوم یہ کہ ڈیفلیشن مستقل بنیادوں پر معیشت کا حصہ بن جائے گی جو کہ ایک بہت بری چیز ہے۔
اس کے جواب میں سب سے پہلے تو اس بات میں فرق کیجئے کہ منزل اور اس تک پہنچنے کا راستہ دو مختلف چیزیں ہیں ۔ مدینہ میں اسلامی ریاست کے قیام کے لئے مکہ کے تلخ مرحلے سے گزرنا پڑا، مگر اس مقصد کو اس لئے ترک نہیں کردیاگیا کہ اس کا حصول مشکل تھا بلکہ مقصد کی طرف سفر جاری رہا کیونکہ مقصد بذات خود حکم شرعی کے اعتبار سے فرض تھا ۔
سونے اور چاندی کی کرنسی کے فوائد مجموعی طور پر اس وقت حاصل ہونگے جب معاشرے میں یہ کرنسی رائج ہوگی ۔ اس سے قبل کاغذی کرنسی کو حذف کرنے میں جو مشکلات آئیں گی ، وہ مقصد کی اہمیت کو ختم نہیں کرسکتیں۔ ان میں سے ایک مشکل یہ ہے کہ کاغذی کرنسی اپنے قدم جماچکی ہے اور اس میں بے جا اور مصنوعی پھیلاؤ کی وجہ سے معاشرہ افراط زر اور مہنگائی میں جکڑاگیا ہے۔ جب عوام سونے اور چاندی کو اختیار کرے گی تو سونے اور چاندی کی قیمت اپنی اصل کی طرف واپس جانے کی وجہ سے مہنگائی کم ہوگی اور قیمتیں گریں گی ، یہ تو کوئی اتنی بری چیز نہیں کیونکہ اس سے عوام کو فائدہ پہنچے گا ۔
اقتصادی لحاظ سے ایک اور پہلو زیادہ اہم ہے کہ سونے اور چاندی کو کرنسی کی بنیاد رکھنے سے معاشرہ مستقل بنیادوں پر ایک ہلکی سی ڈیفلیشن کا شکار رہے گا کیونکہ کرنسی کی مقدار اتنی ہی رہے گی یا بہت آہستہ بڑھے گی جبکہ اشیاء اور خدمات تیزی سے بڑھتی چلی جائیں گی۔ لیکن حقیقت میں یہ بات ہی باطل اور فاسد ہے اور سرمایہ دارانہ سوچ کا مظہر ہے کہ مسلسل ایسی ہلکی سی ڈیفلیشن بھی معیشت کے لئے مضر ہے۔
فرض کریں کہ اگر میرے پاس ایک درہم ہے اور میں اس سے ایک درجن انڈے خرید سکتا ہوں تو جب انڈوں کی قیمت گرے گی اور میں ایک درہم سے دو درجن انڈے خرید سکوں گا تو یہ صورت فائدہ مند ہوگی۔تو پھر سرمایہ دارانہ معاشی ماہرین کیوں اس کے اتنے خلاف ہیں ؟َ اس کی وجہ ان کا یہ گمان ہے کہ ڈیفلیشن سے معیشت تباہ ہوجاتی ہے اور کاروبار دیوالیہ ہوجاتے ہیں مگر اہم بات یہ ہے کہ اس کا اطلاق صرف ان کے سودی نظام میں ہوتا ہے ، ڈیفلیشن کا یہ خوف دینار اور درہم پر اعتراض کرنے والوں کا اہم نکتہ ہے اور اس نکتے کو سمجھنے سے یہ مسئلہ حل ہوجائے گا۔
فرض کریں کہ میں نے بنک سے لاکھ روپے قرض لے کر فرنیچر کے کاروبار میں لگایا ، بنک نے شرط رکھی کہ میں بنک کو 3000 روپے ماہانہ لوٹاؤں گا جس میں سے 2000 روپے قرض کی اصل رقم ہوگی اور 1000 روپے سود ہوگا ۔ اگر میری آمدن بھی 3000 روپے ہی ہے اور میں ہر روز ایک کرسی 100 روپے کی بیچ دیتا ہوں تو میرا کاروبار آسانی سے چلتا رہے گا کیونکہ بنک کو اصل رقم اور منافع (سود) مل رہا ہے۔ اب اگر معاشرے میں ڈیفلیشن کا دباؤ پڑے اور میں یہ دیکھوں کہ لوگ کرسی نہیں خرید رہے تو مجھے قیمت کم کرکے 50 روپے کی کرنی پڑے گی ، یوں کہنے کو تو مجھے نقصان ہوا یعنی میری آمدنی صرف 1500 روپے رہ گئی مگر کیونکہ یہ ڈیفلیشن پورے معاشرے میں لاگو ہوتی ہے ، سو باقی چیزیں بھی سستی ہوگئیں اور میں اب بھی اتنی ہی اچھی زندگی گزارسکتا ہوں ، میرا کاروبار کاغذوں میں تو کم ہوگیا مگر حقیقت میں شاید میں اور زیادہ خوشحال ہوجاؤں کیونکہ میں اس کم آمدن سے بھی زیادہ خرید سکوں گا ، مگر بنک کے قرض اور سود لوٹانے کے لحاظ سے یہ صورت مضر ہے کیونکہ اگر میری آمدن 1500 روپے ہوگئی تو میں اپنے بنک کو سود تو کیا قرض کی اصل رقم ادا کرنے سے بھی قاصر ہوجاؤں گا اور بنک میرا کاروبار دیوالیہ کردے گا ، یہی وجہ ہے کہ سودی نظام خصوصی طور پر ڈیفلیشن کو اتنا مضر گردانتا ہے کیونکہ اس کا تمام نکتہ نظر اپنے قرض اور اس کے سود کی واپسی پر ہوتا ہے۔
بنک کے قرض کے برعکس جب اس معاملہ کو کاروباری سطح پر دیکھیں ہمیں کوئی مسٔلہ نظر نہیں آتا۔ اگر میں لکڑی 60 روپے کی خریدتا ہوں اور کرسی بنا کر کسی کو 100 روپے کی بیچتا ہوں تو میرا کاروبار چل سکتا ہے مگر جب کرسی کی قیمت گر کر 50 روپے ہوجائے گی تو پھر مجھے نقصان ہی نقصان ہو جائے ،لیکن بات یہ ہے کہ جب کرسی 50 روپے کی ہوئی تو لکڑی بھی تو 30 روپے کی ہوجائے گی ۔ لہٰذا منافع برقرار رہے گا۔
صرف اسلام کا نظام ہی امریکی تسلط کو ختم کر سکتا ہے، جو کمیونسٹ ریاست اپنے خاتمے سے پہلے کرنے میں ناکام رہی۔ سونے اور چاندی کے نظام کی طرف واپسی استحکام کو بحال کرے گا، اور ایک ریاست کی دیگر ریاستوں پر مالیاتی بالادستی کا خاتمہ کرےگا۔ بین الاقوامی اور ملکی تجارت میں سونے اور چاندی کو اپنانے سے اسلامی ریاست ڈالر کے تباہ کن انحصار کو ختم کر دے گی۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،اَلَا يَعۡلَمُ مَنۡ خَلَقَؕ وَهُوَ اللَّطِيۡفُ الۡخَبِيۡرُ " بھلا جس نے پیدا کیا وہ نہیں جانے گا؟ وہ تو پوشیدہ باتوں کا جاننے والا اور (ہر چیز سے) آگاہ ہے۔"(الملک، 67:14)
بلاگ: غزالی فاروق بلاگ | Ghazali Farooq Blog